Latest

آئی ٹی سیکٹر کی برامدات میں اِضافہ اور مزید مواقع

2024 میں دُنیا کی آئی ٹی مارکیٹ کا سائز 1200 ارب ڈالر تک ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال اس سیکٹر میں 8 فیصد سے ذائد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اس شعبے میں بھی اب تک اپنا حصہ لینے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہے اوریہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ پاکستان میں نوجوان، باصلاحیت آئی ٹی پروفیشنلز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ پاکستان کو ان کمپنیوں کے لیے پرکشش بناتا ہے جو سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور دیگر آئی ٹی خدمات کو آؤٹ سورس کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں آئی ٹی کے شعبے میں ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں، جس کا ابھی تک صیع فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا۔ موجود حکومت نے آئی ٹی سیکٹر کو بہت اہمیت دی ہے اور اس کو ایک بڑے برآمد کنندہ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ حکومت نے ٹیک اسٹارٹ اپس کو فروغ دینے اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کے پاکستان کی اس سال کی آئی ٹی برآمدات کا تخمینہ تین ارب ڈالر سے زائد لگایا جارہا ہے۔ جو کہ پچھلے تین سالوں سے مسلسل 20 فیصد کے حساب سے بڑھ رہیں ہیں۔

اسکی بنیادی وجہ حکومتِ پاکستان کی پالیسیاں ہیں جنہوں نے برآمد کنندگان کو اپنے اکاؤنٹ میں غیر ملکی کرنسی کی قابل اجازت حد کو 35 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا۔ اس سے آئی ٹی کمپنیوں کو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی کرنسی میں رکھنے کی اجازت مل گئی، جسے وہ دوبارہ کاروبار میں لگا سکیں گے۔ ایک نسبتاً مستحکم پاکستانی روپے کی وجہ سے بھی آئی ٹی کمپنیوں نے اپنے غیر ملکی امدنی کو ملک میں واپس بھیچنے کی ترغیب دی ہے جس سے بھی برآمدات کے مجموعی اعداد و شمار میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کی حکومت نے آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے۔ ان پارک میں جدید ترین دفتر کی جگہ، تیز رفتار انٹرنیٹ، اور بلاتعطل بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ آئی ٹی کمپنیوں کو بنیادی چیزوں کی فکر سے آزاد کر کے کاروباری سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ ان پارک کے اندر کام کرنے والی کمپنیاں اکثر ٹیکس میں چھوٹ، کرایہ میں سبسڈی اور آلات کی ڈیوٹی فری درآمد سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ تمام سہولتیں آپریشنل اخراجات کو نمایاں طور پر کم کرتی ہیں۔ ان پارکس کا ایک اور فائدہ IT کمپنیوں کے لیے نوکر شاہی کے طریقہ کار کو آسان بنانا ہے۔ اس میں تیزی سے کاروبار کی رجسٹریشن، غیر ملکی آئی ٹی افراد کے لیے آسان ویزا پروسیسنگ، اور موثر ریگولیٹری فریم ورک شامل ہے۔ آئی ٹی کمپنیوں کا ایک جگہ پر ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ ملتا ہے جو معلومات کے اشتراک اور نیٹ ورکنگ کے لیے بہت ضروری ہے۔

تاہم، پاکستان کو اپنے آئی ٹی سیکٹر کی صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے لیے اب بھی کئی چیلنجز سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ ترقی کے باوجود، پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کو اب بھی کچھ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں قابل اعتماد اور سستی انٹرنیٹ تک رسائی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ برین ڈرین بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ ہنرمند آئی ٹی پروفیشنلز کو زیادہ تنخواہوں پربیرون ملک کام مل جاتا ہے۔

پاکستان آئی ٹی برآمدات میں اضافہ کی رفتار کو جاری رکھ سکتا ہے اسکے لیے اسے انفراسٹرکچر میں مسلسل سرمایہ کاری کرنے پڑے گی۔ اسے تیز رفتار انٹرنیٹ اور بلا تعطل بجلی کی رسائی کو یقینی بنانا پڑے گا۔ ہمیں آئی ٹی میں جدت لانے پر توجہ دینی ہو گی۔ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ جیسی جدید ٹیکنالوجیز میں تحقیق اور ترقی کی حوصلہ افزائی کرنے سے پاکستان کو مستقبل میں اس شعبہ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہوسکے گا۔ اسکے لیے ایسے پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جو نوجوانوں کو جدید ترین آئی ٹی مہارتوں سے آراستہ کرتے ہیں۔ بلاشبہ ان چیلنجز سے نمٹنے اور اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں عالمی سطح پر ایک اہم ملک بن سکتا ہے۔