حکومت کو زرمبادلہ کے ذخائر کو متوازن رکھنے کے لیے لمبی مدت کے لیے پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔
ملک میں ڈالر کی قلت کی وجہ سے انٹر بنک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان فرق 25 سے 30 روپے کا فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب ڈالر کو اوپن مارکیٹ میں کیش کررہے ہیں۔ اِسی وجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائے گئے زر مبادلہ میں اِس ماہ 19 فیصد کمی واقع ہوئی ۔ اِس کمی کے بعد 2 ارب ڈالر کا زرمبادلہ بنک کے ذریعے بھجوایا گیا۔ اگر چہ پاکستان کو جنیوا، سعودی عرب اور دوبئی کی جانب سے خاطر خواہ مدد ملی ہے مگر اِس مالی امداد کے آنے پر ملک دُشمن پراپیگنڈہ کی وجہ سے حالات حکومت کے قابو میں نہیں آ رہے۔ اسمیں قصور ہمارے معاشی ماہرین کا بھی ہے جو کہ حالات کی سنگینی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
موجودہ حکومت نے بہت سے مشکل فیصلے کیے ہیں مگر اب مزید فیصلے کرنے سے پریشان ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کے آئی ایم ایف کی شرائط حقیقت پسندانہ تو ہو سکتی ہیں مگریہ پاکستان کی معیشت اور عوام پر بہت بوجھ ڈال دے گا۔ جو کہ پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچے ہوئے ہیں۔ حکومت کی بے وقت کی راگنی کہ میثاق معیشت کی جائے۔ غیر حقیقت پسندانہ بیان ہے۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان جو ماحول ہے اور جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے اس میں کوئی احمق ہی اُمید لگا سکتا ہے کہ دونوں سیاسی قوتیں کسی بھی مسئلہ پراکٹھی بیٹھ سکتی ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ یا تو حکومت کوئی حقیقت پسندانہ پالیسی بنائے جو چاہے کتنی بھی سخت ہو مگر اُس میں ایک واضح روڈ پلان ہونا چاہیے۔
پاکستان میں ڈالر کے اُتار چڑھاؤ روکنے کے لئے سخت اقدام کرنے ہو ں گے۔ سرحدوں کے ذریعے ہونے والی سمگلنگ کو روکنا ہو گا۔ اِس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی غریب عوام کو کھانے پینے کی اشیاء میں ریلیف دینا ہو گا۔ پاکستان میں نہ تو سیاسی استحکام ہے اور نہ ہی یہ انتخابات کے بعد آئے گا۔ جو بھی یہ اُمید لگا کر بیٹھا ہےشاید اُس نے پاکستان کی چالیس سالہ تاریخ کا صیح سے مطالعہ نہیں کیا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک میں ایک معاشی کمیشن کی تشکیل دے کر ملک کو اِس گرداب سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ تمام فیصلے بروقت اور فوری طور پر ہو سکیں۔