پاکستانی میں خطرناک چئیر لفٹ کا ذمہ دار کُون؟
پچھلے ہفتے چئیر لفٹ کے ٹوٹنے کے واقعہ نے پوری ملک کی توجہ اپنی طرف لے لی۔ اِس توجہ کی وجہ بھی بنتی تھی۔ کیوں کے آٹھ افراد کی زندگیوں کا سوال تھا ۔ خوش قسمتی سے سولہ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد تمام افراد کوچئیر لفٹ سے اُتار لیا گیا ۔ بدقسمتی سے اِس سارے واقعہ کے بعد ہر کوئی اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع ہو گیا ۔ جس کی وجہ نہیں بنتی تھی۔ اِن افراد کو بچانے میں ادراوں کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی بھرپور حصہ لیا اور جو لوگ ٹی وی پر یہ دیکھ رہے تھے انہوں نے بھی ان افراد کے لیے دعائے خیر ضرور کی۔
تنقید اپنی جگہ پر مگر سب سے پہلا سوال ہے کہ یہ اتنی خطرناک لفٹ چئیر وہاں پر کیوں تھی تو اس کا سیدھا سادھا جواب ہے کہ اِس کے ذمہ دار وہ حکمران ہیں جنہوں نے پچھلے تیس سے پینتیس سال اِس ملک پر حکومت کی۔ اگر ان حکمرانوں نے نیک نیتی سے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو اِس لفٹ چئیر کی بجائے وہاں پُل بن چُکا ہوتا۔ اور اگر لفٹ چئیر بھی ہوتی تو کم از کم ایک محفوظ سسٹم کے تحت لگائی جاتی۔ بدقسمتی سے پچھلے تیس سالوں میں جتنے بھی حکمران آئے اگرچہ انہوں نے ملک کو بدلنے کے بلند و بانگ نعرے لگائے۔ مگر جب حکومت چھوڑی تو ملک پہلے سے بھی زیادہ مسائل کا شکار تھا۔
موجودہ عبوری حکومت نے بچوں کی مُشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مقامی اِسکول کو بڑی کلاسوں تک بڑھا دیا ہے۔ لفٹ چئیر کے مالکان کے خلاف کاروائی کی ہے اور اِس طرح کی لفٹ چئیر وں کو بند کر کے ان کے حفاظتی پہلوؤں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے عوام کی پریشانی کو مدِنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر ان لفٹ چئیر کا متبادل کیا جائے۔ اگر یہ لفٹ چئیر ضروری ہیں تو ان کے حفاظتی پشتوں کو انجنیرزکی زیر نگرانی مضبوط کیا جائے۔
اِس کے علاوہ جن افراد نے ہاتھ سے چلنے والی ڈولی کے ذریعے ان افراد کو بچایا اُن کی بھرپور مدد کرنی چاہیے بلکہ تار سے چلنے والی ڈولی کو جدید بنایا جائے اور ہو سکے تو ان افراد کو شامل کر کے ایک ٹیم بنائی جائے جو تار اور ڈولی سسٹم کے ذریعہ نا صرف پہاڑی علاقوں بلکہ بڑی عمارتوں میں بھی با وقت ضروری ریسکیو کرسکیں۔