پاکستان حکومت سٹیل مل سے جان چھُڑانے میں ناکام
پاکستان سٹیل مل ایک ایسا کمبل ہے جس سے جان چھُڑانا ناممکن ہو گیا ہے۔ پاکستان سٹیل مل عرصے سے بند پڑی ہے۔ مگر حکومت تنخواہ کی مد میں اربوں روپے ہر سال حکومتی خزانے سے دے رہی ہے۔ سٹیل مل کو نجی شعبہ میں دینے کا سب سے اچھا موقع 2007 میں تھا مگر اُس وقت سپریم کورٹ نے اِس کی نجکاری کو روک دیا۔ اُس وقت سے آج تک یہ ادارہ پاکستان کے خزانے پر ایک بوجھ ہے اور اربوں روپے اِس پر خرچ کر دئیے گئے ہیں۔ دو سے تین بار اس کی نجکاری کی کوشش بھی کی گئی جو ناکام ہوئی۔ اس کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں بھی کی گئی مگر وہ بھی ناکام ہوئیں۔
موجودہ عبوری حکومت نے اس کی نجکاری کے لیے دوبارہ کوشش کیں مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ سٹیل مل کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس کا عملہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوا ہے جس کی نااہلی اِس ادارے کی تباہی کی اصل وجہ ہے۔ اب اِس ادارہ میں کم سے کم سات آٹھ سال سے کوئی اپ گریڈ نہیں ہوا جس کی وجہ سے اِس کی مشینری بہت پرانی ہے۔ اس کے علاوہ اس پر قرض بھی بہت زیادہ ہے اس لیے کوئی بھی بین الاقوامی گروپ اِس کو خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔اِس سے جان چھُڑانے کے لیے حکومت کو اسے ایسے ہی بیچنا چاہیے۔ اور اس کے عملے کو رقم ادا کر کے ملک کو مزید نقصان سے بچانا چاہیے۔ اِ س کے علاوہ اِس کا کوئی اور حل نہیں ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت تمام عملے کو معطل کرکے اور اس کے زیادہ تر شئیر اپنے پاس رکھ کر کسی بین الاقوامی گروپ کو اِسے چلانے کی ذمہ داری دے دے اور اِس میں دوبارہ مداخلت نہ کرے۔ صرف اسی صورت میں سٹیل مل کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔