FeaturedPakistan

تاریک مستقبل سے بھاگتے پاکستانی بحیرہ روم میں زندگی کی بازی ہارگئے

یونان کے سمندروں میں ڈوبنے والی کشتی کا واقعہ بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس میں سات سے آٹھ سو کے قریب لو گ سوار تھے جن کا تعلق ایشیاء اور افریقہ کے غریب ممالک سے تھا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس میں 209 پاکستان بھی سوار تھے جن میں سے صرف 12 افراد ہی بچ سکے ہیں. ان پاکستانیوں کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ اس حادثہ نے 209 گھر اجاڑ دیے۔ اس واقعہ پر ہر قسم کے تاثرات کا اظہار کیا گیا ۔ مگر سب سے سخت بیان اٹلی کی پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے دیا جس نے ان لوگوں کو چور قرار دیا۔ اس سے پتا چلتا ہے کے مغربی ممالک میں ایسے افراد کی کیا مدد کی جاسکتی ہے۔ مگر سوچنے کا مقام ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں کےان نوجوانوں نے چوبیس لاکھ کی خطیر رقم دے کر اتنا بڑا خطرہ مول لیا۔ اس کا جواب سیدھا سا دھا ہے اور وہ ہے غربت، بے روزگاری اور پاکستان میں ایک تاریک مستقبل۔ پاکستانی معاشرہ ویسے ہی گھُٹن کا شکار ہے ۔ لاقانونیت عروج پر ہے۔ انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جگہ جگہ مذہبی اور لسانی جتھے بنا کر بٹھائے ہوئے ہیں۔ مگر کہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک حکومت مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرتی ہے تو اگلی حکومت ان کو سر انکھوں پر بٹھاتی ہے۔ جرائم پیشہ افراد نے الگ جگہ جگہ نو گو ایریا بنائے ہوئے ہیں ۔ کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کا قبضہ اس کی ایک مثال ہے۔ بیروزگاری خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے ۔ ان حالات میں ایک جوان انسان کے لیے جو اپنے کیرئیر کا آغاز کر رہا ہو مستقبل کے بارے میں کیا اُمید پاکستان میں نظرآسکتی ہے۔ اب تو وہ تمام مشہور شخصیات جو پاکستا ن میں کام کرنے کا پرچار کرتی تھیں اب وہ نوجوان نسل کو باہر جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ پاکستان کو اس تباہی تک لے جانے میں پاکستان دشمن ممالک اور ملک میں موجود ان کے ایجنٹوں کا ہاتھ ہے جو ان کے ساتھ مل کر لوٹ مار کرتے ہیں اور بعد میں اپنی اولادوں کے ساتھ بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو جانے بوجھے منصوبے کے تحت تباہ کیا گیا ہے۔ اگر پاکستان میں بجلی بنانے کے لیے آبی ، جوہری ، تھر  اور شمسی ذرائع کا استعمال کیا ہوتا  اور پاکستان صنعت کو اولین ترجیح دی ہوتی تو آج ملک کے یہ حالات نہ ہوتے۔

اس وقت جبکہ ملک انتہائی گھمبیر مسائل کا شکار ہے اور ہر  محب وطن پاکستانی خواہ وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو پریشان ہے کیونکہ سیاسی، معاشی اور سیکورٹی کے حالات انتہائی خراب حدوں کو چھو رہے ہیں ان حالات میں اگر نوجوان طبقہ ملک چھوڑ کر جانے کے لیے بیتا ب ہے تو ان کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ پاکستان کے حالات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں مگر اس کے لیے انتہائی مخلصانہ کوشش کی ضرورت ہے۔ اور چالیس سال کے مسائل ایک آدھ سال میں ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لیے پانچ سے دس سال کا پلان ہونا چاہیے جو موجودہ سیاسی تناظر میں خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔