پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار مُشکلات کا شکار
پاکستان میں رئیل سٹیٹ کا کاروبار اب مشکلات کا شکار ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ موجودہ حکومت کی اِس شعبہ کے بارے میں پالیسی ہے۔ 2018 کے بعد رئیل اسٹیٹ کے شعبہ کو غیر معمولی چھوٹ دی گئی جس میں سب سے نمایاں ایمنسٹی تھی جو کوئی بھی اِس شعبہ میں سرمایہ کاری کرے گا ۔ اُس سے اُس کی آمدنی کے ذریعہ کا نہیں پوچھا جائے گا۔ پاکستان میں ٹیکس چوری، سمگلنگ اور رشوت کا بے تحاشہ پیسہ ہے جو لوگوں نے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ جب لوگوں کو سرمایہ کاری کا موقع ملا تو انہوں نے اپنا پیسہ رئیل اسٹیٹ میں لگا دیا۔ اِس کے علاوہ جن لوگوں کے پاس جو جمع پونجی تھی انھوں نے بھی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کردی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ہر طرف نئی سے نئی ہاؤسنگ سکیمیں اور بڑے بڑے پراجیکٹ بننا شروع ہو گئے۔ پاکستان کے ہر شہر میں جو علاقے اچھے تھے وہاں گھروں یا پلاٹوں کی قیمتوں میں تین سے چار گنا تک اضافہ ہو گیا۔ اگرچہ قیمتوں میں اس غیر معمولی اضافہ سے سرمایہ کاروں نے تو خوب پیسہ بنایا مگر اِس کے کئی نقصانات بھی سامنے آئے۔ ایک تو اِس پیسے کو اگر صنعتوں کے فروغ میں لگایا جاتا تو ملک اِس معاشی بُحران کا شکار نہ ہوتا۔ ملک میں پیدا وار کے اضافے سے لوگوں کو روزگار ملتا ور حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔ اِس سے درآمدات میں بھی کمی ہوتی اور برآمدات میں اضافہ ہوتا۔ اس سے پاکستان کو زرمبادلہ کے جس بُحران کا سامنا ہے وہ نہ ہوتا۔
دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں زرعی زمینوں پر بھی بننا شرو ع ہو گئیں۔ اگرچہ قانون کے مطابق اِس کی اجازت نہیں مگر افسر شاہی سے ملی بھگت کے بعد ایک وسیع رقبہ کو زرعی زمین سے ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بدل دیاگیا جو کہ انتہائی خطرناک رُجحان ہے۔ پاکستان جیسا ملک جو پہلے ہی خوراک کی قلت کا شکار ہے وہاں زرعی زمینوں کا اِس طرح خاتمہ مستقبل میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہواکہ پراپرٹی کی قیمتوں میں اِس ہوش ربا اضافہ سے مڈل کلاس اور اِس سے نیچے کے لوگوں کے لیئے گھر بنانا مُشکل ہو گیا۔ ان پراپرٹی ڈیلروں، انویسٹروں نے پلاٹوں کی ذخیرہ اندوزی کر لی اور عوام کو مہنگے داموں پلاٹ فروخت کرنے لگے۔ ماضی میں بے نامی پراپرٹی ٹیکس میں جھوٹ اور اِس طرح کی دوسری مراعات کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمتیں ہوش رُبا حد تک بڑھ گئی تھیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک پانچ مرلے گھر کی قیمت بھی دو کروڑ سے تین کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کی پالیسیاں اس ضمن میں خاصی بہتر ہیں اِس سے نہ صرف رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں کمی واقع ہو گی بلکہ یہ سرمایہ صنعت کاری کی طرف جائے گا جو کہ سرمائے کا ایک بہترین استعمال ہے اِس سے ملک میں معاشی ترقی ہوگی۔