پاکستان میں کھیلوں کی تباہی
دُنیا میں کھیل ایک بہت بڑی انڈسٹری ہے۔ نہ صرف فٹ بال ، باسکٹ بال، ٹینس اور دیگر کھلاڑی ارب پتی ہیں بلکہ یہ دُنیا کی ایک بڑی صنعت ہے۔ اسوقت کھیلوں کی صنعت کا تخمینہ 500 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ کھیل نہ صرف عوام کو تفریح فراہم کرتے ہیں بلکہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بھی ہیں۔ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ منتظمین اور میڈیا کے افراد اس صنعت کی بدولت ہی کمائی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کھیلوں کو بھی باقی چیزوں کی طرح تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ بلکہ کافی حد تک کھیلوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان اسکوائش ، ہاکی اور کرکٹ میں دنیا کی اہم ٹیموں میں شمار ہوتا تھا۔ اب سکوائش اور ہاکی کا تو نام و نشان بھی نہیں بچا۔ جب کہ کرکٹ میں بھی دو تین کھلاڑیوں کی وجہ سے جیت رہے ہی۔ کبھی تواچھی ٹیموں کو بھی ہرا دیتے ہیں تو کبھی افغانستان جیسی ٹیم سے بھی مُشکل سے ہی جیت پاتے ہیں۔ ابھی حال میں انڈیا سے 226 رنز کی شکست انتہائی شرمندگی کا مقام تھی۔
پاکستان میں کھیلوں کی تباہ کاریوں میں سب سے بڑا ہاتھ پاکستان کی سپورٹس یونینوں کا ہے۔ جو کسی بھی طور پر کھیلوں کی بہتری کے لیے کام نہیں کر رہیں۔ بلکہ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کو پاکستان میں کھیلوں کی تباہی کا ٹاسک دیا گیا اور سپورٹس بورڈ میں بیٹھے ہوئے لوگ انتہائی تندہی سے یہ کام سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی حرکا ت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کھیلوں کو بہتر کرنے میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ارادہ ۔ لوگ اسی وجہ سے آہستہ آہستہ کھیلوں سے ہٹ رہے ہیں۔ آج کھیلوں کے میدانوں میں ویرانی نظر آتی ہے اور تماشائی مُشکل سے میچ دیکھنے آتے ہیں۔ سری لنکا کی ٹیم پر حملہ بھی پاکستان کے کھیلوں پر کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش تھی جس کو بہانہ بنا کر پاکستان کو سالوں کھیل کی دُنیا سے دور کر دیا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ باقی شعبوں کی طرح کھیلوں کی ترویج کے لیے جامعہ منصوبہ بندی کی جائے۔ کرکٹ کی طرح ہاکی، فٹ بال اور باقی کھیلوں میں بھی لیگ سسٹم شروع کیا جائے۔ سپورٹس بورڈ کو مکمل خود مختاری نہ دی جائے۔ اور ملک میں منتظمین اور کھلاڑیوں کی اجارہ داریوں اور سیاست کو ختم کیا جائے۔ اگر حکومت اِس جانب دُرست قدم لیتی ہے تو یہ کھیلوں کی دُنیا میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ عدلیہ کو بھی لمبے لمبے عرصے سے دیئے گئے مختلف اسٹے آرڈر کو ختم کردینا چاہیے۔