Latest

پاکستان کی دگرگوں معشیت اور بین الاقوامی اداروں کے بے حسی

ملک میں اس وقت جس افراتفری اور بے یقینی کی صورتحال ہے۔ اُس نے ملک کی معاشی حالت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ گیلپ کے ہونے والے حالیہ سروے میں 72 فیصد بزنس مین  نے رائے دی ہے کہ ملک صحیح سمت میں نہیں جا رہا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ خطرناک سمت میں جا رہا ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔ غیر یقینی اور افراتفری کی صورتحال کبھی بھی سرمایہ دار کو راغب نہیں کرے گی۔ سرمایہ دار وہاں پیسہ لگاتا ہے جہاں اُس کا سرمایہ محفوظ ہو۔ پاکستان اس وقت سیاسی اور معاشی ابتری کا شکار ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کو سری لنکا کے بعد ڈیفالٹ کا خطرہ رکھنے والے ممالک میں  سر فہرست رکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر کے آس پاس گھوم رہے ہیں۔ آئی ایم ایف مسلسل ٹال مٹول کر رہا ہے۔ اور اس کا پاکستان کو قرض دینے کا  کوئی ارادہ نہیں لگ رہا۔ دنیا میں افراط زر کی لہر نے پاکستان میں کچھ زیادہ ہی اثر کیا ہے۔ پاکستان میں افراط زر کی شرح چالیس فیصد سے اوپر ہی رہ رہی ہے۔ جس سے لوگوں کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ اور بازاروں میں خریداروں میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آ رہا۔ حکومت نے شرح سود میں 21 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔ جو کہ آج تک کی بلند ترین سطح ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بنکوں سے قرض لینے والوں کی تعداد میں 74فیصد کمی ہوئی ہے۔ 21 فیصد شرح سود دنیا میں بہت ہی زیادہ شرح سود ہے۔ بھارت میں امید کی جا رہی  تھی کہ شرح سود میں اضافہ کیا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ ترکیہ میں بھی شرح سود بڑھانے پر ملکی اور غیر ملکی سطح پر بہت دباؤ ڈالا گیا اُردگان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

اگرچہ حکومت کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ اُس نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا ہوا ہے۔ مگر اب پاکستان کو اِس مشکل حالات سے نکالنے کے لیے بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو خطے کے ممالک کے ساتھ معاشی روابط بڑھانے چاہیے اور صنعتی شعبے کو ترقی دینے لیے اقدام کرنے چاہیے۔ پاکستان میں صنعتی شعبہ کی ترقی میں ہی پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حالات میں صنعتی شعبہ انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔

اگر چہ چین اور پھر سعودی عرب کی جانب سے قرضے کو رول اوور ہونے کے بعد اُمید ہوئی تھی کی آئی ایم ایف کی جانب سے قرضے کی قسط جاری ہو جائے گی۔ مگر اسحاق ڈار کی جانب سے امریکہ کا دورہ ختم کرنے اور یہ بیان دینے کے بعد کہ ہم آئی ایم ایف کے ممبر ہیں بھکاری نہیں ظاہر کرتا ہے کہ حالات کوئی اچھے نہیں ہیں اور آئی ایم ایف قرضہ کی قسط جاری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ آج آصف علی زرداری نے بھی پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کہا کہ جاپان اور ارجنٹائن نے بھی ڈیفالٹ کیا تھا مگر انہوں نے اپنی معیشت کو دوبارہ سیدھا کر لیا ۔ اگر پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہے تو ہم بھی چیزوں کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائر یکٹر کریسٹالینا جارجیوا نے اسحاق ڈار کو اِس ہفتے میٹنگ کا ٹائم دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ خاصہ حیران کن تھا کہ آئی ایم ایف کے ایک ہم رُکن کو وقت دینے کے لیے تیار نہیں خاص طور پر جب وہ ملک شدید مشکلات کا شکارر ہو۔