FeaturedPakistan

چارٹر آف ڈیموکریسی یا معاشی کمیشن

آصف علی زرداری نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد اب چارٹر آف اکانومی کرنے پر زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ بین الاقوامی قوتیں پاکستان کو ڈیفالٹ کروا کر پاکستان کی فوجی قوت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ ان قوتوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کا نیوکلئیر اور میزائل پروگرام کو بھی ختم کر دیا جائے۔ آئی ایم ایف کا پچھلے چند ماہ سے  رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بات صرف معاشی پالیسیوں کی نہیں ہے۔  حکومتی وزراء نے بھی ڈھکے چُھپے الفاظ میں اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اصل میں وجوہات کچھ اور ہیں۔ پاکستان ان معاشی مسائل سے نکل سکتا ہے لیکن اس کے لیے اُسے کچھ وقت درکار ہے جس کے دوران اُسے کچھ صحیح فیصلے کرنے ہوں گے۔ بد قسمتی سے پچھلے تیس سال کے دوران جتنی بھی حکومتیں رہیں ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اس نہج پر پہنچا۔ صنعتی شعبہ کو مراعات دینے کی بجائے اس کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔ بجلی کے مہنگے ترین کارخانے لگائے گئے جو آج ملکی معیشت اور صنعت کو تباہ کرنے میں پیش پیش ہیں۔

عدلیہ اور بیوروکریسی بھی صنعتی طبقے کی زندگی مشکل کے بعد ان کے فیصلوں کے نتائج بھگتنے پڑے ریکوڈک میں پاکستان کو اربوں ڈالر جرمانہ دینا پڑا۔ سٹیل مل اگر اُس وقت بک جاتی تو پاکستان  نے جو اربوں روپے دے کر اس کو چلایا اُسکی بچت  ہو جاتی ۔ اِسی طرح راولپنڈی میٹرو اور لاہور اورنج ٹرین کو روکنا غلط فیصلہ تھا۔ بیوروکریسی دن بدن  کرپٹ ہوتی گئی اور صنعتی ترقی میں اپنے مفاد کےلیے ہر جگہ روڑے اٹکائے گئے۔ لاقانونیت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے مذہبی اور لسانی جتھے بنائے گے جنہوں نے ملک میں خاصی تباہی پھیلائی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں لاقانونیت کی وہ لہر آئی جس نے ملک کی بنیادی ہلا  کر رکھ دیں۔ اس سے بیرون ملک پاکستان کی ساکھ بُری طرح متاثر ہوئی۔ پچھلے دو تین سالوں سے یہ جتھے پھر بہت متحرک ہوچُکے ہیں۔ اور حالات خرابی کا شکارہیں۔

پاکستان نے اپنی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھ میں دے دیں ہیں۔ ضرورت اس  امر کی ہے کہ ان حالات کو ٹھیک کرنے  کے لیے تمام پارٹیاں اور اسٹیک ہولڈر متحد ہوں گے۔ ان مسائل کا حل ایک پارٹی کے پاس نہیں۔ ہمارے  چالیس پچاس سال سے یہ بات واضح ہے کہ سیاسی استحکام پاکستان میں آتا نظر نہیں آتا۔ ان مسائل کا حل یہ ہی ہے کہ پاکستانی معیشت کو چلانے کے لیے ایک کمیشن تشکیل  کی جائے۔ اس کمیشن اور چئیر مین اور ممبر تمام بڑی پارٹیوں کی مشاورت سے لگائے جائیں ۔ امریکہ میں سی آئی اے کے اندر معاشی سیل ہے۔ پاکستان  میں بھی سی آئی اے  کے اندر ایسا ایک سیل ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ملک میں ہنگامی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔ اور صنعتی شعبہ کو اولین ترجیع دے کر تمام مسائل کو حل کرنا چاہیے۔

پاکستانی سیاستدانوں کی نیت اور اہلیت ایسی نہیں کہ ان پر بھروسہ کیا جائے۔ کوئی پارٹی سی پیک کے حق میں ہے تو کوئی اس کے خلاف ہے۔ کبھی ہم روس کی جانب چل پڑتے ہیں تو کبھی ایران سے ایسا معاہدہ کر لیا جاتا ہے جس پر عمل ہی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کو ان تمام ممالک سے تجارت میں وسیع پیمانے پر فروغ دینا چاہیے۔ مگر ہمیں سیاسی شعبدہ بازی کر کے ملک کو  نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں معاشی سوجھ بوجھ کا فقدان ہے اور ان پارٹیوں میں فیوڈل طبقہ کی اجارہ داری کی وجہ سے کاروباری طبقہ کو اہمیت نہیں دی جاتی اس لیے کسی بھی جماعت نے صنعتی ترقی کو صحیح معنوں میں توجہ نہیں دی۔ سیاسی جماعتیں مقبولیت کو برقرار رکھنے پر زیادہ توجہ  دیتی ہیں اور مشکل فیصلوں کو  ٹالتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے جا تے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بین الاقوامی دباؤ کا شکار بھی رہتی ہیں۔ اس لیے ہمارے کئی وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بنک تو آتے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے آتے ہیں اور انہیں کی خوشنودی کے لیے کام کرتے ہیں۔

ان سارے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کم ازکم معاشی شعبہ کو تو آزاد اور خودمختار ادارے کے طور پر سامنے لانا چاہیے۔ اگر پاکستان ایک مضبوط اور بااثر کمیشن بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ملک کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو گا۔ اس کمیشن کی پالیسی کو حکومت سمیت تمام اداروں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ ابھی حکومت کی جانب سے ایک کمیشن قائم کیا گیا ہے جس میں فوج کا بھی نمایاں کردار رکھا گیا ہے۔