چاہ بہار بندرگاہ کا معاہدہ
ایران اور بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ کا د س سالہ معاہدہ کیا ہے۔ اگرچہ چاہ بہار بندرگاہ کو خطے میں وہ اہمیت حاصل نہیں جو گوادر کی بندرگاہ کو ہے مگر جب نیت کچھ کرنے کی ہو تو بہت کچھ حاصل کیا جا سکتاہے ۔ چاہ بہار بندرگاہ پر پچھلے چھ سالوں میں نوے ہزار چھوٹےاور بڑے جہاز لنگر انداز ہو چکے ہیں۔ جن سے تقریبا ً 84 لاکھ ٹن سامان اِس بندرگاہ پر اُتارا گیا ہے۔ اِس کے برعکس گوادر جو کہ ایک اچھی جگہ پر ہونے کے ساتھ ساتھ اِس سے کئی گُنا بڑی ہو سکتی ہے اور جو سڑکوں کے ذریعہ ان تمام علاقوں سے ملائی جا سکتی ہے اِس بندرگاہ پر پچھلے سال صرف 23 جہاز لنگر انداز ہوئے اور اِ س سال صرف تین جہاز۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب قومیں کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تو وہ کم اہمیت والے پراجیکٹ سے بھی بہت کچھ حاصل کر لیتی ہیں اور جب نیتیں ٹھیک نہ ہوں تو پھر سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہیں کیا جاتا ۔
بھارت افغانستان، وسطی ایشیائی، روس اور مشرقی یورپ کی ریاستوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے اور پاکستان سے تعلقات میں کوئی بہتری نہیں آ رہی۔ اِس کے لیئے چاہ بہار کی بندرگاہ ایک بہترین موقع تھا جس کو بھارت نے ایران کے ساتھ مل کر شروع کرنے میں ذرا بھی تعمل نہیں کیا اور انتہائی تیزی سے اس کو مکمل کرکے اس پر کام بھی شروع کردیا۔ اِس پراجیکٹ پر بھارت نہ صرف تکنیکی مدر فراہم کی بلکہ اس منصوبے پرسرمایہ کاری بھی کی۔ چاہ بہار سے اگرچہ افغانستان کا راستہ لمبا اور دشوار گزار ہے مگر افغانستان بھی پاکستان کے علاوہ دوسرے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ خصوصاً بھارت سے سامان منگوانے کے لیے یہ بندرگاہ بہترین راستہ ہے۔ بھارت اس بندرگاہ کے ذریعے مشرقی یورپ اور روس تک تجارت بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگرچہ امریکہ نے بھارت کو اِس بندرگاہ کے استعمال سے متنبہ کیا ہے مگر کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ سب زبانی جمع خرچ ہے اور در پردہ بھارت کو سب کرنے دیا جائے گا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ بھارت جلد ہی دُنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے والا ہے اب وہمغرب کی بی ٹیم بن کر نہیں رہنا چاھتا۔ اگر بھارت نے اپنی معیشت کو مزید ترقی دینی ہے تو پھر اِسے وسطی ایشیاء ، ایران ، روس اور چین سے اپنی تجارت کو وسعت دینا ہو گی ۔ چنانچہ چاہ بہار بندرگاہ کی اہمیت مستقبل میں مزید بڑھے گی اور یہ بھارت کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔