Latest

کیا ہمیں بجلی گھروں کی نجکاری کرنی چاہیے؟

حکومت نے جن کمپنیوں کو نجی شعبہ میں دینے کا فیصلہ کیا ہے  اُس میں چار پاور پلانٹ بھی ہیں۔ ان میں 1,223 میگا واٹ کا بلوکی، 1,230 میگا واٹ کا حویلی بہادر، 747 میگا واٹ کا گڈو اور 425 میگا واٹ کا نندی پور پاور پلانٹ شامل ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ نجی شعبہ کاروباری اداروں کو بہتر انداز میں چلا سکتا ہے، اس لیئے ایسے ادارے جو نقصان میں جا رہے ہیں اِن کو فوری طور پر نجی شعبہ کے حوالے کر دینا چاہیئے ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کہ کیا ان بجلی گھروں کو نجی شعبہ میں دینا ملکی مفاد میں ہے۔

سب کو معلوم ہے کے پاکستان کی معشیت میں اسوقت جو تباہی آئی ہوئی ہے اسکی بڑی وجہ نجی شعبہ میں لگنے والے بجلی گھر ہیں۔ ہم ان نجی کمپنیوں سے بجلی خریدیں یا نہ خریدیں ہمیں کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں اربوں  روپے ان کو ادا کرنے ہی ہیں۔ یہ  ہی کپیسٹی پیمنٹ عوام، کاروبار، صنعت اور حکومت کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ بن چُکے ہیں۔ اِس سال ٹیکسٹائل کی برآمات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے او صنعت کار اِس کی ایک  بڑی وجہ مہنگی بجلی کو قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان میں فی یونٹ بجلی 70 روپے کے قریب ہےجب کہ بھارت میں یہ 20 پاکستانی روپے فی یونٹ ہے۔  بنگلہ دیش میں فی یونٹ پاکستانی روپوں میں بایئس روپے کا ہے۔ اِس صورت میں پاکستانی اشیاء کے لیے بین الاقومی منڈی میں ان ممالک کی اشیاء سے مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

اتنی مہنگی بیچنے کے باوجود پاکستان کی حکومت ہر سال 500 ارب کے لگ بھک گردشی قرضے کے چکر میں پھنس جاتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے گردشی قرضہ 2,500 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ لوگوں کے لیے بل دینا الگ مُشکل ہے اور آمدنی کا ایک پیشتر حصہ بجلی کی مد میں چلا جاتا ہے۔ ان آئی پی پی کے بارے میں ایک تجویز یہ بھی دی گئی تھی کہ بجلی اور گیس سے چلنے والے پاور پلانٹ  کو حکومت خرید کر بند کر دے۔ اِس طرح گردشی قرضوں میں نمایاں کمی آجائے گی۔ اس وقت پاکستان کی توانائی شعبہ کی درآمدات ہماری مجموعی برآمدات کے ستر فیصد کے برابر ہیں جو کےیں تیل ، گیس اور کوئلہ کی ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ سب سے مہنگی بجلی درآمدی گیس سے پڑتی ہے۔ اس کے  بعد فرنس آئل اور پھر درآمدی کوئلہ سے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں 45,000 میگا واٹ کے پلانٹ لگے ہئوے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی کھپت 20,000 میگا واٹ کے لگ بھگ ہے جب کی سردیوں میں طلب اور کم ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں کپیسٹی کی مد میں رقم یا تو صارفین کومہنگی بجلی دے کر وصول کی جاتی ہے یا حکومت ادا کرتی ہے۔ اب مزید چار کمپنیاں نجی شعبہ کو اِسی شرائط پر دے دیئے جاتیں ہیں تو اس سے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں مزید اضافہ ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے  کہ کپیسٹی چارجز کو کسی طرح جلد از جلد ختم نہیں تو کم کرے۔

حکومتی شعبہ میں چلنے والے یہ تمام بجلی گھر منافع میں ہیں۔ حکومت ان بجلی گھروں کو وقت ضرورت چلا سکتی ہے۔ اور جب ضرورت نہ ہو تو ان کو بند کیا جاسکتا ہے اور اس صورت میں صرف سٹاف کی تنخواہ اور دیکھ بھال کا خرچہ ہو گا جو کہ کیپسٹی پیمنٹ سے بہت ہی کم ہو گا۔ یہ بجلی گھر ویسے بھی حکومت کو کما کر دے رہی ہیں۔ حکومت نے جب سے کراچی الیکڑک کو نجی شعبہ کے حوالے کیا ہے اس ادارے میں مسلسل تباہی ہی آئی ہے۔ ان چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے مزید 3,625 میگا واٹ کے بجلی گھر نجی شعبہ کو دینا کا فیصلہ صیع نہیں ہوگا اور اس سے حالات میں مزید خرابی آئے گی اور ہماری معاشیت پر مزید بوجھ بڑھے گا۔ اِس لیئےضروری ہے کے حکومت اِس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔