امریکا کا قرض کی حد میں اضافے پر پھر بحث و مباحثہ
امریکہ کا بیرونی قرضہ 31 کھرب ڈالر کی حد چھو گیا ہے۔ جو کہ دُنیا میں کسی ملک پر سب سے بڑا قرضہ ہے۔ اس وقت امریکہ قانون کے مطابق اِس حد کو میں اضافے کے لئے دوبارہ کانگریس سے منظوری کی ضرورت ہے۔ ہمیشہ کی طرح اِس دفعہ بھی اِس خدشہ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ شاید کانگریس اِس حد کو نہ بڑھائے۔ مگر دونوں پارٹیوں کو معلوم ہے کہ اِس سے امریکہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اب تک قرضے کی حد کو 78 دفعہ بڑھایا گیا ہے۔ مگر اِس دفعہ حالات تھوڑے گھمبیر ہیں کیوں کہ یہ قرضہ امریکہ کی مجموعی پیداوار کے 96 فیصد ہے۔ ا س کا مزید اضافہ اس کو 100 فیصد کی نفسیاتی حد تک لے جائے گا۔ ورلڈ بنک کے مطابق جب قرضہ مجموعی پیداوار کا 75 فیصد سے زائد ہو جائے تو یہ کسی بھی ملک کی معشیت کے لیے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
قرضہ کی حد کو بڑھانا مسئلہ کا حل نہیں ہے لیکن امریکی حکومت کے پاس اِ س کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ کیوں کہ ڈیفالٹ کی صورت میں امریکہ کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اِس کے ساتھ دُنیا کی تمام معیشت کے لیئے یہ نقصان دہ ہو گا۔ اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکا ہے کہ امریکہ نے 90 ارب ڈالر چین کے بھی دینے ہیں اور اب چین بہت تیزی سے اِس قرضہ کو بیچ رہا ہے۔
دُنیا بھر میں زر مبادلہ کے آدھے سے زیادہ ذخائر امریکی ڈالر میں ہیں۔ اگر امریکہ ڈیفالٹ کرتا ہے تو ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی آئے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ممالک اب سونے کے ذخائر بڑھا رہے ہیں۔ اگر چہ قوی اُمید ہے کہ قرضے کی حد میں اضافہ کر دیا جائے گا مگر ماہرمعاشیت سوال کررہے ہیں کہ یہ اضافہ کب تک ہوتا رہے گا؟