InternationalLatest

انڈین چاند پر جانے میں خوش اور پاکستانی زمین پر پریشان

انڈیا چاند پر مشن بھیجنے والا چوتھا ملک بن گیا ۔ اِس سے پہلے امریکہ، روس اور چین چاند پر جا چکے ہیں۔ چاند پر کل 12 افراد  اُتر چکے ہیں۔ اور یہ سب امریکن تھے۔ یہ تمام افراد 1969 سے 1972 کے دوران چاند پر گئے تھے۔ امریکہ نے اِس کے بعد خلا میں شٹل پروگرام بھی شروع کیا تھا۔ جو 1981 میں شروع ہوا اور 2011 تک جاری رہا۔ انڈیا کا چاند پر اُترنے کا پراجیکٹ چنددریان 3 ، سات ارب پچاس کروڑ میں مکمل ہوا جو کہ باقی ممالک کے مقابلے میں بہت سستا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کا بھیجا گیا مشن جنوبی علاقے میں  ہے جہاں ابھی تک کوئی اور ملک نہیں جا سکا۔ انڈین اِس کامیابی پر بہت خوش ہیں اور اُنہیں خوش  ہونا بھی چاہیے ۔ انڈیا نے پچھلی تین چار دہائیوں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے اور آج انڈیا معاشی ، صنعتی ، تعلیمی ، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تمام شعبے تباہ حالی کا شکار ہیں۔ ہماری معیشت اس وقت بھی ڈیفالٹ کے خطرے میں ہیں۔ عام آدمی کی زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے۔اور حکومت سے لے کر ایک عام آدمی کا دن معاشی جدوجہد سے شروع ہوتاہے اور اِسی پر ختم ہوتا ہے۔

پاکستان میں اِس تباہ حالی کی ذمہ دار عوام نہیں بلکہ وہ حکمران ہیں جنہوں نے پچھلے تیس چالیس سال حکومت کی۔ اِن حکمرانوں میں سیاسی افراد تو ذمہ دار تھے ہی مگر اصل تباہی مارشل لا کے ادوار میں آئی جس نے قوم کو ملک سے باہر اور اندر ایک ایسی جنگ میں الجھا دیا جس نے ملک کے ہر شعبہ کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا۔ اس تباہی کے ذمہ دار صرف سیاستدان ہی شامل نہیں تھے بلکہ اس میں سول اور فوجی بیوروکریسی کے لوگ بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ عدلیہ کے فیصلے بھی سیاسی اور معاشی طور پر ملک کو بہت مہنگے پڑے۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ اِس سےملک کو شدید نقصان پہنچا تو غلط نہ ہوگا۔ آج ملک بھر میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ کہیں دہشت گردی ہور ہی ہے تو کہیں ڈاکو راج ہے۔ صنعتیں تباہ حالی کاشکار ہیں۔ روپیہ تیزی سے اپنی قدر کھو رہا ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ تعلیم کے نام پر لوٹ مار جاری ہے۔ پرائیوٹ یونیورسٹیاں ڈگریاں بانٹ رہی ہیں مگر معیار تعلیم انتہائی ناقص  ہے۔

سیاسی محاذ پرہر نیا دن نیا بکھیڑا لے کر آتا ہے۔  کل تو دور کی بات ہے۔ اب یہ بھی نہیں معلوم کے شام تک کیا ہو گا۔ چند لوگ حکومت پر قبضہ کر لیں تو ان سے اقتدار چُھڑانا مُشکل ہو جاتا ہے۔ ہماری بین الاقوامی پالیسی بھی عجیب کنفیوزن کا شکار ہے۔ کبھی ہم چین کے بلاک میں ہیں تو کبھی امریکی بلاگ میں۔ کبھی سعودیہ اور دوبئی سے مالی مدد لے رہے ہوتے ہیں۔ تو کبھی ایران سے آس لگا لیتے ہیں۔ کبھی قوم کو تھر کے کوئلے کے بارےمیں خوش فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں تو کبھی ان کو ریکوڈک اور کبھی چنیوٹ کے لوہے کے ذخائر اور کبھی CPEC کے خواب دکھاتے ہیں۔ مگر ہوتا کچھ نہیں کیوں کہ یہ سب کہانیاں ہیں کبھی بھی کوئی ملک ایک پراجیکٹ سے ترقی نہیں کرتا ۔

اگر ہم انڈیا سمیت چین ، ویت نام، انڈونیشیا ، ترکی وغیر ہ کی ترقی کو دیکھیں تو ان ممالک میں پچھلے تیس چالیس سال سیاسی استحکام رہا ہے۔ انہوں نے تعلیم اور صنعتی ترقی کو اولیت دی۔ اور ان شعبوں کو درپیش مسائل کو حل کیا۔ اس کے علاوہ زراعت  اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی خوب ترقی کی۔ آج یہ تمام ممالک معاشی طور پر بہت بہتر ہیں۔ جب کہ پاکستانی مشکلات ، پریشانیوں اور تفکرات کا شکار ہیں۔ اور ہمارے پاس خوش فہمیوں کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن آج بھی ہم اگرصحیح سمت کی جانب چل پڑیں تو پانچ سات سالوں کے اندرمعاشی بُحرانوں سے نکل کر ترقی کے سفر کا آغاذ کر سکتے ہیں۔