اور اب دوبئی لیکس
پاکستان میں گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی لیکس آتی رہتی ہے۔ سب سے پہلے پانامہ لیکس آئی، اِس کے بعد پینڈورا پیپرز اور اب دبئی لیکس آئی۔ اگرچہ تمام سیاسی پارٹیاں اِس کو اپنے مقصد کے لیئے استعمال کرتی رہتی ہیں مگر ہمارا مقصد کسی ایک فرد واحد یا سیاسی پارٹی کو ٹارگٹ کرنا نہیں بلکہ اس بات کو باآور کروانا ہے کہ کس طرح ہماری اشرافیہ ملک سے پیسے باہر لے کر جاتی ہے۔ وہ اشرافیہ جو ہر وقت عوام کو قربانی دینے کا درس دیتی رہتی ہے۔ مگر اِس کی جائیدادیں اور خاندان آرام سے غیر ممالک میں شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ پاکستان میں اِس اشرافیہ میں سے بیشتر کی ٹیکس کی آمدنی یا اصل جائز آمدنی بہت کم ہوتی ہے مگر ان کی پاکستان میں اچھی بھلی جائیدادیں ہیں اور باہر کا تو حساب ہی نہیں ۔
دُبئی لیکس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ باہر کے ممالک میں جائیداد رکھنا قانونا ً غلط نہیں۔ اگر کسی کی آمدنی ہےاُس نے اپنے کاغذات میں یہ آمدنی ظاہر کی ٹیکس دیا اور جائز طریقے سے پیسہ باہر لیکر گیا ہے تو ا ِس میں کوئی خرابی نہیں۔ مگر کیا یہ جائز طریقہ سے کمایا ہوا پیسہ ہے جو جائز طریقہ سے ملک سے باہر گیا؟ میرے خیال میں تمام لوگ اِس بات پر متفق ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ 1990ء میں ایک مغربی خاتون صحافی نے پاکستان کے بارے میں کتاب لکھی تھی کہ پاکستانی افسر شاہی کے بچے مغربی ممالک میں پڑھتے ہیں جب کے ان کی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے جس میں شاید پاکستان کے پرائیوٹ سکول میں بھی اپنے بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں ہے۔
دُبئی واحد ملک نہیں جہاں پاکستانیوں کا پیسہ ہے۔ پاکستانیوں کی سب سے پہلی ترجیح امریکہ ، کینڈا، یورپ اور آسٹریلیا ہے۔ ان ممالک میں ہماری اشرافیہ کی جائیدادوں کی کہانیاں گاہے بگاہے چھپتی رہتی ہیں۔ اسکے علاوہ ان افراد نے آف شور کمپنیاں بنا رکھیں ہیں۔ پانامہ لیکس میں 580 سے زائد افراد کا نام آیا تھا وہ دُبئی لیکس سے کہیں بڑا سکینڈل تھا۔ دُبئی لیکس میں تو ایک یا اِس سے زیادہ گھر ہیں مگر پانامہ میں تو ایک ایک کمپنی میں اربوں کی رقوم گھمائی جاتیں ہیں۔ یہ اتنا بڑا گھن چکر ہے جس میں کچھ پتا ہی نہیں چلتا کہ اِس کا پیسہ کہا ں گیا۔ اسکے بعد پینڈورا لیکس کا سکینڈل آیا تھا جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
پنامہ لیکس، پینڈورا پیپرز اور دبئی لیکس وغیرہ میں خاصہ پیسہ ایسا بھی ہے جو پاکستان کے غریب عوام پر خرچ ہونا چاہیے تھا۔ اگر یہ پیسہ ملک سے نہ جاتا تو پاکستانی روپیہ یوں ٹکے ٹوکری نہ ہوتا ۔ آج سے چالیس سال پہلے ڈالر بیس روپے کا تھا ۔آج سے سات سال پہلے تک روپیہ سو روپے کا تھا۔ اگر یہ اربوں ڈالر جو پانامہ لیکس دبئی لیکس اور مغربی ممالک میں نہ جاتے تو پاکستانیوں کی قوت خرید اتنی خراب نہ ہوتی- ہمارے ملک میں بجلی کا یونٹ 65 روپے کا نہ ہوتا بلکہ بھارت کی طرح پاکستانیوں کو بھی 20 روپے کا یونٹ مل رہا ہوتا۔ اور ہماری صنعتیں بھی اس تباہ حالی کا شکار نہ ہوتیں۔
یہ ہی اشرافیہ ملک کو لوٹتی ہے پھر اِس کو بُرا بھلا کہہ کر مال غنیمت اور خاندان لے کر فخر کے ساتھ امیر ملکوں میں چلی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہر معاشرے لوٹ مار کو بُرا سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں اِس لوٹ مار کو ہوشیاری اور ذہانت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اکثر یہ جملہ بھی سُنا جاتا ہے کہ یہاں پیسہ وہ نہیں بناتا جس کو موقع نہیں ملتا ۔ اگر آج پاکستان معاشی تباہی کا شکار ہے تو اِس کی وجہ ہماری اشرافیہ کی لوٹ مار ہے۔ پاکستان میں بلاشبہ کشمیر سے لے کر کاغان ، ناران ، گلگت ، سکردو، سوات اور چترال جیسے کئی خوبصورت علاقے ہیں مگر لوگ دُبئی کیوں جاتےہیں جہاں عمارتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ تو اِس کا جواب بھی سادہ ہے کہ اشرافیہ کو پتہ ہے کہ پاکستان میں حالات سازگار نہیں۔
اگرچہ اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد لوٹ مار کر کے بیرون ملک چلی جاتی ہے مگر ایک ایسا کاروباری طبقہ بھی ہے جو ملکی حالات کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر ملک چھوڑ جاتا ہے۔ ماضی میں ایسے حالات ہوئے کہ کئی صنعت کار اور سرمایہ دار جو پاکستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کر رہے تھے مگر اپنے سرمائے اور جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ ان کو سیاسی یا جرائم پیشہ لوگوں کی طرف سے اس قدر پریشان کیا گیا کہ ان کے پاس اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ بہرحال وجوہات کوئی بھی ہوں مگر ایک بات واضح ہے کہ اسمیں نقصان عوام کا ہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کے جب پاکستان کی اشرافیہ ہی پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے تو ہم کس طرح غیر ممالک کے سرمایہ داروں سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنا پیسہ پاکستان میں لائیں۔