ایران پاکستان گیس پائپ لائن
ایران گیس پائپ لائن نے پاکستان کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ ہمارے پالیسی سازوں کا ایک ایسا فیصلہ تھا جو بغیر سوچے سمجھے سیاسی مفاد کے لیے کیا گیا اور اب پاکستان نہ تو اس سے پیچھے ہٹ سکتا ہے اور نہ ہی اسے بنا سکتا ہے۔ حال ہی میں جب ایران نے اِس مسئلہ کو بین الاقوامی ثالثی میں اُٹھانے کی دھمکی دی تو حکومت نے اِس پائپ لائن پر دوبارہ کام کرنے کا عندیہ دیا۔ پاکستانی حکومت نے اس ضمن میں امریکی پابندیوں کے خاتمہ کے لیے بھی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ اگرچہ امریکی پابندیوں کے باوجود انڈیا ایران سے بڑے تجارتی روابط رکھتا رہا اور ایرانی تیل کم قیمتوں پربھی خریدتا رہا ہے مگر انڈیا کو اِس بارے میں امریکی پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ امریکہ نے انڈیا کو اجازت دی ہوئی اگرچہ پاکستان حکام پُر امید تھے کہ اُن کو بھی گیس پائپ لائن کی اجازت مل جائے گی مگر امریکہ نے اِس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہونے سے قبل ہی پاکستان کو اِس پراجیکٹ کے بارے میں متنبہ کر دیا ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان پر امریکہ پابندیوں کا اطلاق ہو گا ۔ موجودہ حالات میں جب پاکستان کی تمام معیشت بین الاقوامی اداروں پر انحصار کرتی ہو پاکستان امریکی پابندیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ دوسری طرف ایران کی طرف سے دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہاہے اور ایران پاکستان پر معاہدہ کی پاسداری نہ کرنے پر خطیر رقم کا جرمانہ کروا سکتا ہے۔
اگر چہ تاپی پائپ لائن کے اوپر بھی قوم کو بڑے سنہری خواب دکھائے جارہے ہیں ۔مگر افغانستان کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ۔ اِس منصوبہ کوبھی عملی جامعہ پہنانا مشکل نظر آتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ماضی میں بھی کبھی اچھے نہیں رہے۔ ایسی صورت میں اِس پائپ لائن کا مکمل ہونا اور بلا تعطل گیس کی فراہمی کا شروع ہونا ایک معجزے سے کم نہیں ہوگا۔
بدقسمتی سے ایسے عناصر پر جو سیاسی مفاد کے لیے ایسے معاہدہ کر جاتے ہیں اُن کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کےمستقبل میں تمام فیصلے ایک ایسے فورم کے ذریعہ کیے جائیں جوکہ ملکی اور بین الاقوامی حالات کو مدِنظر رکھے۔ ایسا اس لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنے سیاسی مفاد میں ملک کو ایسی صورتحال میں نہ دھکیلے جس سے واپسی کا راستہ نہ ہو۔