ایلسلواڈور اور ویتنام خوشحالی اور امن کی دو مثال
ایلسلواڈور اور ویتنام دو ایسے ممالک ہیں جن سے پاکستان کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان دو ممالک نے جس طرح لاقانونیت اور معشیت کو سُدھارا ہے اس کی مثال دُنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ پانچ سال پہلے تک ایلسواڈور کا شمار دنیا کے خطناک ترین ممالک میں ہوتا تھا۔ جہاں قتل کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ تھی۔ سارے ملک پر جرائم پیشہ گروہوں کا قبضہ تھا۔ یہ گروہ ایک دوسرے کے خلاف پرتشدد کاروائیاں کرتے۔ لوگوں کو اغوا کرتے اور حکومتی افراد کو نشانہ بناتے۔ ایک وقت میں بڑی تعداد میں لوگوں نےامریکہ کی طرف ہجرت کرنے کی کوشش کی ۔ لوگ جرائم کی وجہ سے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ مگر پھر ان لوگوں کی سُنی گئی اور نائب بوکیلا نامی ایک نوجوان نے ان جرائیم پیشہ گروہوں کے خلاف کاروائی شروع کر دی۔ اگر نائب بوکیلا کو دوسری جماعتوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر اُس نے قانون میں ترمیم کر کے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ نئے قانون کے تحت کسی بھی شخص کولمبے عرصے کےلیے جیل میں ڈالاجا سکتا ہے۔ ملک میں گرفتار افراد کی تعداد 75000 ہو گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو جیل میں رکھنا بھی ایک مسئلہ تھا۔ اس کے لیے ایلسوا ڈور میں دُنیا کی سب سے بڑی اور جدید جیل بنائی گئی۔ آج ایلسواڈور ایک پُر امن ملک ہے۔ نائب بوکیلا ایلسواڈور کا سب سے مقبول لیڈر ہے جس کی مقبولیت کی شرح نوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایلسوا ڈور کے لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں اور بغیر کسی خوف کے باہر گھوم پھرسکتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے تھے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ نائب بوکیلا نے لیڈر بن کر دکھایا مگر ملک کے تمام اداروں اور عوام نے اُس کا ساتھ دیا اور پانچ سال سے کم عرصے میں یہ ملک جہنم سے جنت میں بدل گیا۔
دوسری مثال ویتنام کی ہے جس کو دوسری جنگ عظیم ک بعد بھی سکون نصیب نہ ہوا۔ فرانسیسی نظام کے ختم ہونے کے بعد کمیونسٹ اور سرمایہ داری نظام کی رسہ کشی ایک جنگ میں بدل گئی۔ جس میں جنگ ِ عظیم دوم کے بعد سب سے زیادہ تباہی ہو گی ۔ 1975 میں اِس جنگ کے اختتام پر شمالی اور جنوبی ویتنام کا الحاق ہوا ۔ 1986ء میں کمیونسٹ پارٹی میں جب سویت یونین ختم ہوا تو چین کی طرح ویتنا کی کمیونسٹ پارٹی نے ملک میں تبدیلی لاتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ داروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ ان سرمایہ داروں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ملک میں ایسی فضا قائم کی گئی۔ جو سرمایہ کاری کے لئے بہتر تھی تاکہ سرمایہ داروں کو تحفظ کا احساس ہو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ویتنام کا شمار دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ دس کروڑ آبادی والے ملک کا جی ڈی پی اس وقت 460 ارب ڈالر ہے۔ جب کہ 25 کروڑ والے پاکستان کا جی ڈی پی صرف 348 ارب ڈالر ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی مسائل کا شکارہے جہاں بد امنی مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔ یہ دونوں مسائل ملک کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام سیاسہ قوتیں اور ملکی ادارے مل کر ایسی پالیسی بنائیں جس سے ملک ان بحرانوں سے نکل کر ترقی کی طرف گامزن ہو جائے۔ ویتنام اور ایلسواڈور کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اگریہ انتہائی تباہ شدہ ممالک اپنے آپ کو چند سالوں میں ہی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے ۔