InternationalLatest

برکس ایک ابھرتا ہوا نیا معاشی بلاک

برکس (BRICS) جیسے کے نام سے ظاہر ہوتا ہے پانچ ممالک پر مشتمل معاشی معاہدہ ہے۔ جس کو برازیل، روس، انڈیا، چین اور جنوبی افریقہ نے شروع کیا ۔آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے ان تمام ممالک کا شماردُنیا کے دس بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ ارجنٹینا، مصر، ایتھوپیا ،ایران، سعودی عرب اور یو اے ای بھی اِس تنظیم میں شمولیت کرنے کے خواہش مند ہیں۔ برکس ممالک کا مجموعی جی ڈی پی 28 ٹریلین ڈالر ہے جو کہ دنیا کے مجموعی جی ڈی پی (57 ٹریلین ڈالر)  کا 33 فیصد ہے۔ دنیا کے زرمبادلہ کے سب سے بڑا ذخیرہ بھی مجموعی طور پر ان ممالک کے پاس ہے جس کی مالیت  4.5 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔

برکس ممالک عالمی مالیاتی نظم و نسق میں اصلاحات کی وکالت کرتے ہیں تاکہ انہیں مزید جامع اور نمائندہ بنایا جا سکے۔ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے اندر فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ اثر و رسوخ تلاش کرتے ہیں، جو بدلتے ہوئے معاشی منظرنامے کی عکاسی کرتے ہیں۔ امریکی ڈالر پر انحصار کرنے کی بجائے تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے اپنی قومی کرنسیوں کو استعمال کرنے کے بارے میں بھی بات چیت ہورہی ہے جو عالمی لین دین میں ڈالر کے غلبہ کو کمزور کر سکتی ہے۔ یہ تبدیلی بھی بین الاقوامی منڈیوں میں مغربی کرنسیوں کی حیثیت کو بدل سکتی ہے۔

برکس ممالک کی مشترکہ اقتصادی طاقت عالمی منڈیوں میں مغربی معیشتوں کے روایتی غلبے کو چیلنج کرتی ہے۔ اگرچہ یہ تمام ملک دنیا کی سب سے بڑی معیشت چلانے والے ممالک سے ہیں مگر چین اور انڈیا کی معشیتیں بھی دنیا کی چھ بڑی معیشتوں میں شامل ہوتی ہیں۔ ان حالات میں اگر دیکھا جائے تو دنیا کی معیشت دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے۔ کہ G7 میں شامل ممالک اس وقت معاشی دباؤ کا شکار ہیں جس کی وجہ  ان ممالک کے تجارتی خسارہ اور قرضہ میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور یہ مغربی ممالک کے لیے تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ گر تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی معیشت والے ممالک بھی اِس تنظیم کا حصہ بن جاتے ہیں تو یہ بلاک معاشی اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا بلاک بن جائیگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے زیر اثر ممالک  پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ برکس کے ممبر نہ بنیں۔ اٹلی اور ارجنٹینا بھی اسی دباؤ کی وجہ سے برکس کے ممبر نہیں بن رہے۔ انڈیا کے اوپر بھی مغربی ممالک کا بے انتہا دباؤ ہے۔

ابہر حال آنے والے چند سال بلکہ چند مہینے برکس کے لیے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اگر برکس کامیاب ہو جاتا ہے تو نہ صرف مغربی ممالک کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی بلکہ معاشی طور پر خاصے کمزور ہو جائینگے۔ پاکستان بھی  برکس کا ممبر بننے کا خواہش مند ہے اور اِس ضمن میں اپنی کوشش کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان کے ممبر بننے کی راہ میں انڈیا سب سے بڑی رکاوٹ ہے مگر چونکہ باقی ممالک پاکستان کے حق میں ہیں اس لئے پاکستان کے مبر بننے کی اُمید ہے خاصی قوی ہے۔