حکومت کی مویشیوں کے شعبہ کو ترقی دینے کی کوشش
آرمی چیف نے حال ہی میں مویشیوں کی صنعت کو ترقی دینے کی بات کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اِس صنعت کی ترقی کی کافی گنجائش ہے۔ اگر مویشیوں کی صنعت کو جدید پیمانے پر ترقی دی جائے تو پاکستان اِس سے خاطر خواہ آمدنی حاصل کر سکتا ہے۔ ہالینڈ جیسا چھوٹا ملک9 ارب ڈالر کے جانور اور گوشت برآمد کرتا ہے۔ اور تقریبا ً اتنی ہی مالیت کے دودھ اور اُس سے بنی ہوئی اشیاء بر آمد کرتا ہے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں پاکستان کے لیے برآمد کے واضح مواقع موجود ہیں۔ پاکستا ن میں مویشیوں کی صنعت کو چند بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستا ن میں جانوروں میں بیماریوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ جن میں فٹ اینڈ ماؤتھ اور دوسری بیماریاں عام ہیں۔ پاکستان میں بہت کم فارم جدید طرز پر بنے ہوئے ہیں۔ ای اچھے فارم کے لیے ضروری ہے کہ اُس میں جانوروں کو چارہ ڈالنے صفائی رکھنے اور صحت مند ماحول ہو ۔ پاکستان میں مویشی پالنے کے لیے قرضہ کا حصول بھی ممکن نہیں ہے۔ بنک صرف بڑے کاروباری لوگوں کو ہی قرضہ دیتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی کمی اور صاف پانی کا نہ ہونا بھی جانوروں کی صحت پر بہت بُر اثر ڈالتا ہے۔ پاکستان میں چارہ کی بھی کمی ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کا چارہ نہیں پیدا ہوتا اور زیادہ توجہ دیگر فصلوں کو ہوتی ہے۔ اِس چارہ میں غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔ جس سے جانوروں کی افزئش ٹھیک سے نہیں ہو پاتی۔
پاسان میں موسم بھی بہت موزوں نہیں ہوتا ۔ ملک میں شدید گرمی ایک طویل عرصہ رہتی ہے جو جانوروں کی افزائش کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستا ن کے زرعی شعبہ میں مڈل مین کا کردار بہت زیاد ہ ہے۔ یہ مڈل مین اثرورسوخ اور مال دار ہونے کی وجہ سے کاروبار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اور زیادہ منافع خود لے جاتے ہیں۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے پاکستان میں ڈیری کی صنعت کو وہ فروغ حاصل نہیں ہو سکا جو دوسرے ممالک کو حاصل ہے۔ پاکستا ن میں ڈیری فروغ دینے اور اُس کے مسائل کوحل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت اِسے جدید تقاضوں سے چلانے اور مڈل مین کی اجارہ داری کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ صنعت بہت ت تیزی سے ترقی کر سکتی ہے۔