International

دُنیا میں کوریڈور بنانے کا رُجحان

دنیا میں زمینی راستوں کے ذریعے رابطے کرنے کے لئیے سب سے پہلے چین نے اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ چین کو سمندر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے اِس بات کا احساس ہوا کہ اگر جنگ کی صورت میں یہ راستے بند ہوتے ہیں تو چین کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر نا پڑسکتا ہے۔ چین دنیا  بھر سے معدنیات اور تیل برآمد کرتا ہے جب کہ اُس کی مصنوعات دُنیا کے ہر کونے میں جاتی ہیں۔ اِس صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے چین نے مختلف علاقوں پر زمینی ذرائع سے یورپ تک رسائی کے منصوبوں پر عمل شرو ع کر دیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تین سمندری علاقے جو جہاز رانی کے لئیے بہت اہم ہے  دُنیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان میں ایک تو خلیج فارس ہے جہاں ایران سے کشیدگی کی صورت میں علاقہ جہاز رانی کے لئیے محفوظ نہیں رہے گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دُنیا میں تیل کی سپلائی کے لئیے یہ بہت اہم ہے۔ اِس کے بعد بحیرہ احمر ہے۔ جہاں یمن کی وجہ سے مسائل رہتے ہیں تیسرا جنوبی چین کا سمندر ہے جس ساؤتھ چائنہ سی کے نام سے جانا جاتا اس پر چین کا چند دوسرے ممالک کے ساتھ تناؤ ہے اور امریکہ بھی چین کے اس علاقہ کی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔

چنانچہ چین نے ان خطرات کو بھانپتے ہوئے جن زمینی راستوں پر کام شروع کیا ہے ان میں CPEC ہے جو مغربی چین سے شرو ع ہو کر گوادر تک جاتا ہے۔ دوسرا پراجیکٹ چین منگولیا اور روس کے درمیان ہے۔ ایک پراجیکٹ چین سے وسطی ایشیاء کی ریاستوں تک ہے ۔ چین نے  ویت نام، لاؤس اور تھائی لینڈ کو بھی ریل اور سڑک کے ذریعہ ملا دیا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ مشرقی چین سے مشرقی یورپ تک تمام ممالک کو سڑک اور ریل کے زریعے ملانے کا منصوبہ  بھی ہے۔ جو کہ بڑی اہمیت کا حامل ہو گا اور اِس کے ارد گرد کے تمام ممالک اس کوریڈور سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔

بھارت نے ان کوریڈر کے مقابلے میں جی 20 کے ذریعے بھارت مشرق وسطیٰ اور یورپ کے لئیے  ایک نیا کوریڈر شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔مگر یہ فی الحال یہ ممکن نہیں لگتا کیوں کہ یہ تینوں خطے آپس میں زمینی راستوں سے نہیں ملتے۔ ہندوستان کا پاکستان اور ترکی کے بغیر مشرق وسطحی اور یوروپ سے زمینی رابطہ ممکن نہیں۔ مگر اس کوریڈور کو سمندری اور زمینی راستوں سے مکمل کرنے کا پلان ہے۔

اب ترکی نے بھی عراق کے ساتھ ایک کوریڈور کا معاہدہ کیا ہے جوکہ خاصہ قابل عمل بھی ہے اور خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں بھی ہے۔ یہ کوریڈور تیل کی یورپ کو ترسیل کے  لئیے اہم ہو گا۔ اگر خلیج فارس اور بحیرہ احمر بند بھی ہو جائیں تو اِس کوریڈور کے ذریعہ سے تیل کی ترسیل جاری رہے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے عراق ، کویت اور سعودیہ کے تیل کے ذخائر بھی ان ہی علاقوں میں ہیں۔ اگریہ کوریڈور بن جاتا ہے تو ترکی سمیت خطے کے تمام ممالک کو تجارت کے لئیے ایک اہم راستہ مل جائے گا ۔ جو ان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا  کرے گا ۔اِس کوریڈور کے لئیے سب سے بڑا مسئلہ مسلح گروہ ہیں جن کو مختلف ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جب تک ان گروہوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اِس کوریڈور سے مکمل فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکے گا۔

پاکستان ان تمام منصوبوں سے بہت فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں موجود انتشار کی وجہ سے حکومت کوئی لمبی مدت کے منصوبہ پر کام نہیں کر پا رہی۔ پھر ہر منصوبہ  کی اندرونی اور بیرونی طور پر مخالفت کی جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے یہ قوتیں پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئیے کوشاں ہیں۔ چنانچہ اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے منیر نیازی کا شعر ہی سمجھ میں آتا ہے جس کا مفہوم یوں ہے کےکچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے اور کچھ ہمیں مرنے کا شوق بھی تھا ۔