روس سے تیل کی خریداری کا معاہدہ
روس اور پاکستان کے مابین تیل کی خریداری کا معاہدہ طے پا گیا ہے ۔ اِس فیصلے کو حتمی شکل دے کر مارچ سے پاکستان کو تیل کی سپلائی شرو ع ہو جائے گی ۔ اگر چہ روس کے تیل کا قصہ پاکستان میں سال بھر سے چل رہا ہے۔ مگر ماضی میں بھی اِس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کیا جا سکا۔ اِسمیں چند سیاسی، معاشی اور تکنیکی وجوہات تھیں۔
پاکستان کی معیشت چونکہ مغرب اور آئی ایم ایف کے دارومدار پر ہے۔ اس لیے ہماری حکومتیں اِس خوف میں تھیں کہ وہ کیسے یہ تیل خریدیں۔ اِس کے علاوہ آئی ایم ایف پہلے ہی چین سے کئے گئے معاہدوں کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔ مگر اب مغربی ممالک تیل کی قیمتوں کو کم رکھنے کی کوشش میں روس کے تیل پر مکمل پابندی عائد نہیں کرنا چاہیے۔ سعودی عرب بھی پاکستان کو ایک حد تک رعائت دینے پر تیار ہے۔ اور پاکستان کو اگر کہیں سے سستا تیل مل رہا ہے تو اِسکو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
دوسرا بڑ ا مسئلہ روس کو ادائیگیوں تھا۔ چونکہ یہ خریداری ڈالروں میں نہیں ہو سکتی اور دونوں ممالک کے درمیان بنکنگ کا بھی کوئی نطام نہیں جیسا کہ روس چین یا روس اور انڈیا کے درمیان موجود ہے۔ اب اِس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ پاکستان اپنے کسی دوست ملک کے ذریعے ادائیگی کرے گا۔ اگر چہ ان ممالک کا نام نہیں بتایا گیا مگر یہ چین ، ترکی کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا ء کے ملک بھی ہو سکتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اپنی ضرورت کا 30 فیصد تک تیل روس سے خرید کر ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر تک کی سالانہ بچت کر سکتا ہے جو کہ پاکستان کی معیشت کے لئیے بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ پاکستان جیسا ملک پانی ، سولر اور تھرکول کے وافر ذخائر ہونے کے باوجود بجلی کی کمی کا شکار ہے۔ اِسکے علاوہ پاکستان مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء ملک کے سستے توانائی کے ذخائر سے فائدہ نہیں اُٹھا سکا۔