روپے کی اصل قیمت کیا ہے؟
دُنیا کی ایک بڑی امریکی مالیاتی کمپنی گولڈ مین سیک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان کے معاشی محرکات کے مطابق ڈالر کے مقابلے روپے کی قیمت 222 روپے بنتی ہے اور اِس وقت روپیہ اپنی قیمت سے 20 فیصد نیچے ہے۔ پاکستان کرکرنسی مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے بھی اِس امر کا اظہار کئی بار کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے ہونے اور الیکشن کے انقاد بعد ڈالر 250 سے نیچے آ جائے گا ۔ پچھلے چند ماہ سے حکومتی اقدامات کی وجہ سے تجارت کا خسارہ بھی کم ہوا ہے۔ بلکہ پچھلے دو ماہ سے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس پاکستان کے حق میں ہے۔ یعنی جتنی ادائیگیاں پاکستان نے کرنی ہیں اُس سے زیادہ ڈالر ملک میں آ رہے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں روپے کو گرنے سے روکا نہیں جاتا مگر جب روپے کی قیمت میں بہتری آتی ہے تو اسے بڑھنے نہیں دیا جاتا ۔ روپے کی قیمت میں گراوٹ پچھلے پانچ سالوں کے دوران پہلے تو ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد آئی جب اِس میں سات روپے کی کمی ہوئی تو پی ٹی آئی کی حکومت میں آنے کے بعد اس میں نمایاں کمی ہوئی اور ڈالر کی قیمت 160 روپے پر چلی گئی۔ معشیت کے ماہرین اُسوقت اس بات پر متفق تھے کے اگرچہ ن لیگ کی حکومت نے اسکو زبردستی کم رکھا ہوا ہے مگر روپے کی قیمت 125 روپے سے ذیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
روپے کی قیمت میں اصل تباہی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ پر آئی اور ایک وقت میں ڈالر 333 روپے پر بھی فروخت ہوتا رہا ۔ اِس تباہی کی بڑی وجہ پاکستان کا خطرناک حد تک چھُوتا ہوا تجارتی خسارہ، آئی ایم ایف کے پروگرام میں تعطل، سیاسی افراتفری، معاشی پالیسی سازوں کی نا اقابت اندیشی اور کرنسی مارکیٹ میں لوٹ مار کی کھلی چُھٹی تھی جس سے ملکی اور غیر ملکی کرنسی ڈیلروں نے خوب مال بنایا اور پاکستان سے ڈالر لے کر چلتے بنے۔ خوش قسمتی سے حالات اب پہلے کی نسبت خاصے بہتر ہیں۔ اگر چہ حکومت نے اِس سال 25 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہےجس کے لیے پاکستان کوانتظام کرنا پڑے گا۔ مگر پچھلے دوسالوں میں معاشی صورتحال کو جس طرح قابو میں لایا گای ہے وہ قابل ستائش ہے۔
اگر حکومت روپے کی قیمت کو 230 روپے کے قریب لے آتی ہے تو اِس سے عوام کو بہت فائدہ ہو گا ۔ کیوں کہ اِس سے پیٹرول کی قیمت کے ساتھ ہر چیز سستی ہو جائے گی۔ اِس وقت پیٹرول تقریبا ً ایک ڈالر فی لیٹر کے حساب سے بک رہا ہے۔ چنانچہ اِس کی قیمت بھی 220 کے قریب آ سکتی ہے۔ جس سے لوگوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہو گا۔ مگر بدقسمتی سے جب روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔ تو غیر ملکی مالیاتی ادارے اور ہمارے تاجر حضرات تو خاموش رہتے ہیں مگر جیسے ہی روپے کی قدر میں بہتری ہوتی ہے وہ اُسے برآمدات کے لیے نقصان دہ قرار دے دیتے ہیں۔ پاکستانی کرنسی کی تباہی کا اندازہ اِس بات سےلگایا جا سکتا ہے کہ 1990 میں ڈالر 20 روپے کا تھا اِس چونتیس سالوں میں ڈالر چودہ گنا مہنگا ہو گیا ہے۔ ہر دفعہ ڈالر کی قیمت میں کمی کے وقت قوم کو یہ تسلی دی جاتی ہے کہ اِس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ لیکن پاکستانی برآمدات کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ روپے کی اتنی بے قدری کے باوجود پاکستان کی برآمدات بیس ارب ڈالر کے آگے پیچھے ہیں۔ جبکہ بنگلہ دیش کی کرنسی ٹکا ڈالر کے مقابلے میں 109 روپے کا ہے اور بنگلہ دیش کی برآمدات ساٹھ ارب ڈالر سے زیاد ہ ہے۔ اگر صرف کرنسی کی قدر گھٹانے سے تجارت میں بہتری آنی ہوتی تو دُنیا میں ہر ملک اپنی کرنسی کو گرانے کے لیے دوڑ رہے ہوتے مگر دُنیا کے تمام ممالک اپنی کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کیونکہ اِس سے ان کے عوام کی خوشحالی کا گہر ا تعلق ہوتا ہے۔ پاکستانی پالیسی سازوں کو بھی اِس امر کا خیال کرنا چاہیے اور پاکستان عوام کی بہتری کے لیے فیصلے کرنے چاہیں۔