معاشی محاذ پر کچھ اچھی خبریں
اگرچہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پربہت تنقید ہو رہی مگر پھر بھی بہت سے ایسے اقدام ہیں جن کو اگر جاری رکھا جائے تو ملک معاشی طور پر بہتری کی طرف چل پڑے گا۔
موجودہ حکومت کا سب سے بڑا قدم تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے۔ اگر چہ کاروباری طبقہ کی طرف سے اسے شدید تنقیدکا سامنا ہے۔ کیوں کہ اس سے خام مال کی درآمد رُک گئی ہے جس سے صنعتی شعبے کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مگر پاکستان جن حالات میں پھنسا ہوا ہے اِس کے پاس اسکے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے پاس ایک مرحلے پر تین ارب ڈالر سے بھی کم کے زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو دوسرا سری لنکا قرار دیا جا رہا تھا۔ مگر موجودہ حکومت کی کوششوں اور ہمارے دوست ممالک کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ڈیفالٹ کے خطرے سے بچا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خام مال کی درآمد کی وجہ سے صنعتی شعبہ مسائل کا شکار ہے۔ مگر پچھلے سال کا تجارتی خسارہ 47 ارب ڈالر تھا۔ جو کہ خطرناک حد تک زیادہ تھا۔ موجودہ حکومت نے اِس میں خاطر خواہ کمی کی ہے اور غیر ضروری اشیاء کی درآمد کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ جو کہ انتہائی دانشمندانہ اقدام ہے۔
حکومت نے توانائی کے شعبے میں بھی چند اہم قدم اُٹھائے ہیں جن میں دوست ممالک سے اُدھار تیل لینا ، افغانستان سے پاکستانی کرنسی میں کوئلے کی درآمد ، تھر کے کوئلے کے استعمال کو بڑھانے کے لیے کوشش میں اضافہ شامل ہے۔ اِس کے علاوہ حکومت سولر اور جوہری توانائی کوبھی خاصی ترجیح دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس سے تیل درآمد کرنے کے معاہدے کو حتمی شکل دے رہی ہے۔ ایران سے 100 میگا واٹ بجلی کے حصول کو بھی ممکن بنایا جارہا ہے۔ جس سے گوادر کے لوگوں کو خاصی سہولت ہو جائیگی ۔ پاکستان کی معاشی تباہی میں ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیاں ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں لگائے گے تیل اور گیس کے پلانٹ پاکستان کی معیشت کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہورہے ہیں۔ اگر پاکستان آبی، شمسی، جوہری اور تھرکول کے ذریعے پاکستان میں بجلی کی پیداوار کو تیزی سے بڑھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے نہ صرف زرمبادلہ بچے گا بلکہ ہماری صنعت کو سستی بجلی فراہم ہو جائے گی۔
حکومت کا ایک اور اچھا اقدام رئیل اسٹیٹ کے کاروبار پر ٹیکس لگانا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں اور خصوصا ً پچھلے تین سالوں میں اس شعبہ کو بے جا مراعاتیں دے کر کھربوں روپے اِس شعبے میں برباد کردیئے گے جو کہ غیر پیداواری شعبہ ہے۔ اگر یہ ہی پیسہ توانائی اور صنعتی شعبوں میں لگایا جاتا تو آج پاکستان کے یہ حالات نہ ہوتے ۔ شبر زیدی نے حال ہی میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ٹیکس سے چھپے ہوئے کھربوں روپے درحقیقت رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں ہی پڑے ہوئے ہیں۔ بے جاہ ہاوسنگ سوسائٹیوں کی وجہ سے پاکستان میں زرعی زمینوں کی بھی تباہی ہو رہی ہے۔ حکومت کو اِس ضمن میں مزید ٹیکس لگانے چاہیے۔
اگر حکومتی پالیسیاں صنعتی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائیں جائیں تو اس سے ملک بہت تیزی سے ترقی کر کے موجودہ معاشی بُحران سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل سکتا ہے۔