ٹرمپ کی تجارتی پالیسی: اصلاح یا انتشار؟
ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ امریکہ مزید اسی طرح نہیں چل سکتا۔ اگرچہ امریکہ کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی اور بااثر معیشت ہے، لیکن اس کی داخلی کمزوریاں اب واضح طور پر ابھر کر سامنے آ چکی ہیں۔ ایک طرف امریکہ کا مجموعی قرض 36 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، تو دوسری طرف تجارتی خسارہ ایک کھرب ڈالر سالانہ ہے، اور بجٹ خسارہ بھی ایک کھرب ڈالر کے قریب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صرف قرض کی ادائیگی کے لیے ہر سال ایک کھرب ڈالر درکار ہوتا ہے، جو ایک خطرناک حد کو چھو رہا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر امریکہ کی معاشی سلامتی کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن چکے ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو نہ صرف اپنی داخلی اخراجات کو کم کرنا ہوگا بلکہ بیرونی تجارتی خسارے کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔
ٹرمپ حکومت کا یہ مؤقف کہ امریکہ کو دیگر ممالک کی طرح اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ٹیرف لگانے کا پورا حق حاصل ہے، اصولی طور پر درست ہے۔ جب دیگر ممالک اپنی مقامی صنعتوں کو تحفظ دینے کے لیے سبسڈی دیتے ہیں، درآمدی پابندیاں لگاتے ہیں یا ٹیرف بڑھاتے ہیں، تو امریکہ کیوں نہیں؟ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ بحران ایک دن یا ایک حکومت کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ گزشتہ پچیس سالوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آزاد تجارتی معاہدوں کے تحت بڑی تعداد میں نوکریاں ملک سے باہر چلی گئیں، صنعتیں ایشیا منتقل ہو گئیں، اور اندرون ملک مینوفیکچرنگ کا شعبہ کمزور ہو گیا۔ اب اگر کوئی حکومت ان پالیسیوں کو پلٹنے کی کوشش کرے، تو اس میں وقت لگے گا، قربانیاں دینی ہوں گی، اور حکمت سے کام لینا ہوگا۔
ٹرمپ حکومت نے ان پالیسیوں میں تبدیلی کی ٹھانی، لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کو میڈیا میں ایک تماشے کی صورت دے دی گئی۔ ٹوئیٹس اور بیانات کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ امریکہ یکطرفہ اقدامات کرنے جا رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ امریکہ اپنے اتحادیوں اور حریفوں دونوں کو پہلے اعتماد میں لیتا، ایک عالمی مشاورت کرتا، اور وضاحت کے ساتھ یہ بتاتا کہ اس کی نئی معاشی حکمت عملی کیا ہے۔ اس کے بجائے، دنیا میں ایک بے چینی کی فضا پیدا ہو گئی، اور خاص طور پر چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے، یہاں تک کہ دونوں ممالک ایک طویل اور مہنگے تجارتی جمود کا شکار ہو گئے۔ اس کشمکش کا براہ راست اثر عالمی سپلائی چین، اسٹاک مارکیٹس اور صارفین پر بھی پڑا۔
امریکہ کو درپیش دیگر بڑے مسائل میں معاشی عدم مساوات ایک نمایاں مسئلہ ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، درمیانی طبقہ سکڑ رہا ہے، اور نوجوانوں کے لیے معیاری تعلیم اور روزگار کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ صحت کی سہولیات بھی مہنگی اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہیں۔ ان مسائل کا حل صرف بیرونی تجارتی پالیسیوں میں نہیں، بلکہ اندرونی معاشی نظام کی اصلاح میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے، اور ٹیکنالوجی اور مینوفیکچرنگ میں تحقیق و ترقی کو فروغ دے تاکہ امریکی عوام خود کفیل ہو سکیں۔
بین الاقوامی تجارتی تنازعے کا بہترین حل یہی ہے کہ ممالک مل بیٹھ کر ایک منصفانہ، شفاف اور توازن پر مبنی نظام وضع کریں۔ ایسے تجارتی اصول اپنائے جائیں جن میں نہ صرف بڑی معیشتوں کا مفاد ہو بلکہ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ موجودہ تجارتی نظام میں ایک اور بڑا مسئلہ "زیادہ پیداوار” ہے۔ دنیا بھر میں اشیاء کی ضرورت سے زیادہ پیداوار ہو رہی ہے، جس سے قیمتیں گر رہی ہیں، اور چھوٹے کاروبار ختم ہو رہے ہیں۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیداوار کو طلب کے مطابق معتدل رکھا جائے، اور معیاری مصنوعات کو فروغ دیا جائے بجائے سستی اور ناکارہ اشیاء کے۔
یہ وقت ہے کہ امریکہ اپنی قیادت کو ایک نئے انداز سے پیش کرے، محض ٹیرف اور پابندیوں کے ذریعے نہیں بلکہ عالمی معیشت کو استحکام دینے والے اصولوں اور اصلاحات کے ذریعے۔ اندرونی معاشی اصلاح، تحقیق، تعلیم، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ایک مثبت عالمی پیغام ہی وہ طریقہ ہے جس سے امریکہ نہ صرف اپنا معاشی وقار بحال کر سکتا ہے بلکہ دنیا کی معاشی قیادت بھی برقرار رکھ سکتا ہے۔