پاکستان اور روسی تیل
پاکستان میں بدقسمتی سے ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے اوربہت سنجیدہ معاملات پر بھی اکثر انتہائی غیر سنجیدہ بلکہ بچگانہ بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح کا ایک مسئلہ روسی تیل کا ہے۔ جب مشرقی یورپ، چین اور انڈیا جیسے ممالک روس سے انتہائی سستے داموں تیل خرید کر اپنی معشیت کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچا چکے ہیں ہم پچھلے چھ ماہ سے اس پر صرف سیاست کررہے ہیں۔
روس سے تیل خریدنا میں پاکستان کے لیے کچھ مسائل ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ ہمارے پاس غیرملکی کرنسی کے ذخائر کا نہ ہونا ہے۔ چین اور انڈیا کے پاس غیر ملکی کرنسی کے ذخائر ہیں اسلیے انھوں نے تیل خریدنے میں ذرہ برابر دیر نہ کی۔ پاکستان نے چونکہ آئی ایم ایف اور خلیجی ممالک سے قرض لے کر تیل خریدنا ہے اسلیے ہمیں روس سے تیل خریدنے سے پہلے امریکہ اور خلیجی ممالک کی آشیرباد کی بھی ضرورت ہے۔ ایسی خبریں بھی گردش کررہی ہیں کے کوئی بھی بنک امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے کی خوف سے روسی تیل کے لیے ایل سی کھولنے پر تیار نہیں۔ چین اور انڈیا نے روس کے ساتھ پہلے اپنی کرنسیوں میں تجارت کے معاہدے کر رکھے ہیں اور اس کے لیے ان ممالک کے درمیان بنکنگ چینل موجود ہے جب کہ پاکستان کی ایسی کوئی تیاری نہیں ہے۔
اگرچہ حکومت کا کہنا ہے کے پاکستانی وفد کے حالیہ دورہ کے دوران روس پاکستان کو تیل فروخت کرنے پر رضامند ہو گیا ہے مگر جب تک دونوں ممالک اس معاہدہ کو حتمی شکل نہ دے دیں تب تک کوئی بات بھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔ روس نے ماضی میں سٹیل مل اور گدو بیراج جیسے اہم پراجیکٹ کے لیے پاکستان کو مالی اور تیکنیکی مدد فراہم کی ہے مگرپھر پاکستان کے مغرب کی طرف جھکاؤ اور انڈیا کے روس پر دباؤ کی وجہ سے پاکستان اور روس کے درمیان معاشی شعبہ میں کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہ ہوئی جو کے پاکستانی پالیسی سازوں کی غلطی تھی۔ پاکستان کو اگربائیس کروڑ کی آبادی کو غربت کے اندھیروں سے نکالنا ہے تو ہمیں معاشی شعبہ میں دُنیا کے ہر ملک کے ساتھ معاشی تعلقات کو وسعت دینی ہو گی۔