BusinessLatest

پاکستان میں صنعتی سرمایہ کاری کا بحران

پاکستان میں سرمایہ کاری کا بڑا حصہ ایسے غیر پیداواری شعبوں میں لگایا جا رہا ہے جن کا معیشت کی حقیقی ترقی سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر طرف بے تحاشہ ہاؤسنگ اسکیمیں، کمرشل پلازے، شادی ہال، پٹرول پمپ اور دیگر ایسے منصوبے کھڑے کیے جا رہے ہیں جن کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ ملک کی صنعتی ترقی یا روزگار میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ تمام سرمایہ صرف زمین کے ریٹ بڑھانے، کرایہ کمانے یا سٹہ بازی کی نیت سے لگایا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کی بنیاد کمزور اور غیر مستحکم ہو چکی ہے۔

دوسری طرف مینوفیکچرنگ یعنی صنعتی پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاری تقریباً ناپید ہو چکی ہے، کیونکہ اس میں قدم رکھنا ایک جہنم میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ سب سے پہلا مسئلہ پاکستان میں سرکاری نظام کا ہے جہاں ریڈ ٹیپ ازم یعنی غیر ضروری فائلوں کا بوجھ، اجازت ناموں، این او سیز، رجسٹریشنز اور لا تعداد کاغذی کارروائیوں میں مہینے گزر جاتے ہیں اور نتیجہ پھر بھی صفر نکلتا ہے۔ قوانین کی بہتات نے سرمایہ کار کو مفلوج کر دیا ہے، ہر قدم پر ایک نیا قانون، نئی فیس اور نئی پیچیدگی اسے درپیش ہوتی ہے۔

بیوروکریسی کی کرپشن ایک الگ عذاب ہے۔ جائز کام کے لیے بھی رشوت دیے بغیر فائل آگے نہیں بڑھتی۔ ہر محکمہ، ہر اہلکار ایک نیا بہانہ اور تاخیر کا نیا طریقہ ایجاد کرتا ہے تاکہ رشوت کا راستہ ہموار ہو۔ ٹیکس نظام انتہائی پیچیدہ، غیر شفاف اور ظالمانہ ہے۔ نہ صرف یہ کہ ٹیکس ریٹرن بھرنا ایک الجھن ہے بلکہ بار بار نوٹس، فالتو آڈٹ، اور بے بنیاد چالان ایک صنعتکار کو اس حد تک پریشان کر دیتے ہیں کہ وہ یا تو کاروبار بند کر دیتا ہے یا سارا نظام نان فائلر معیشت میں منتقل کر دیتا ہے۔

پاکستان میں توانائی کی لاگت دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ بجلی، گیس اور فیول کی عدم دستیابی اور بلند قیمتیں کسی بھی فیکٹری کو منافع بخش بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسی طرح مشینری اور خام مال کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، چاہے وہ درآمدی ہو یا مقامی۔ لوکل سپلائر اکثر جعلی یا ملاوٹ شدہ مال سپلائی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار کا معیار خراب ہوتا ہے اور ایکسپورٹ مارکیٹ میں بدنامی ہوتی ہے۔

پاکستان میں ہنر مند اور پروفیشنل لیبر کی بھی شدید کمی ہے۔ زیادہ تر مزدور غیر تربیت یافتہ اور غیر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ وقت کی پابندی، معیار کی پاسداری اور کام کے ساتھ دیانت ایک خواب بن چکے ہیں۔ سپلائر وقت پر مال نہیں دیتا، خریدار ادائیگی وقت پر نہیں کرتا، اور محنت کش وقت پر کام پر نہیں آتا۔ پورا معاشی نظام جھوٹ، وعدہ خلافی، اور دو نمبری پر کھڑا ہے۔ ہر طرف بداعتمادی اور غیر اخلاقی رویہ عام ہو چکا ہے۔

قانون و انصاف کی صورتحال بھی سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جرائم، بھتہ خوری، دہشت گردی اور سیاسی مداخلت کے خوف نے صنعت کار کو اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کاروباری تنازعات کے حل کے لیے کوئی مؤثر اور فوری نظام نہیں ہے، عدالتوں میں کیس سالہا سال چلتے ہیں اور انصاف نہیں ملتا۔

ان تمام مسائل کے علاوہ پاکستان میں معاشرتی رویہ بھی سرمایہ کار کے لیے انتہائی مایوس کن ہے۔ مالی معاملات میں دھوکہ دہی، معاہدوں کی خلاف ورزی، وعدہ خلافی، اور بددیانتی عام ہو چکی ہے۔ ہر شخص دوسرے کو بے وقوف بنا کر فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص بڑے پیمانے پر صنعت لگانے کا رسک نہیں لیتا۔ یوں لگتا ہے جیسے ملک میں اجتماعی طور پر صنعتی ترقی کی نیت ہی موجود نہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں بے روزگاری عام ہے، درآمدات کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے اور برآمدات کم ہو رہی ہیں، وہاں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری ہونی چاہیے تھی تاکہ نہ صرف روزگار بڑھے بلکہ معیشت بھی مستحکم ہو۔ مگر افسوس، ہم صرف پلازے، شادی ہال، ہاؤسنگ اسکیمیں اور پٹرول پمپ بنا کر خود کو ترقی یافتہ سمجھنے لگے ہیں، جبکہ اصل ترقی کارخانوں اور پیداواری صنعتوں سے آتی ہے۔