پاکستان میں فضائی آلودگی: پنجاب اور لاہور میں بڑھتا ہوا بحران
پاکستان میں فضائی آلودگی نے خطرناک حدوں کو چھو لیا ہے، خاص طور پر پنجاب اور اس کے دارالحکومت لاہور میں۔ لاہور کی فضائی آلودگی اب تمام حدوں کو عبور کر چکی ہے، اور یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث لوگوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جن میں سانس کی بیماریاں، دل کی بیماریاں اور اوسط عمر میں کمی شامل ہیں۔ پاکستان میں فوسل فیولز پر انحصار، پرانے صنعتی طریقے، اور ماحولیات کے قوانین پر عملدرآمد کی کمی اس بحران کا باعث ہیں۔ اس بلاگ میں لاہور اور پنجاب میں فضائی آلودگی کو کم کرنے کے اہم اقدامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کی بڑی وجہ بھارت میں فصلوں کو جلانے کی موسمی سرگرمی ہے۔ بھارتی کاشتکار ہر سال اپنی فصل کا ملبہ جلانے کے بعد نئی فصل لگانے کی تیاری کرتے ہیں، جس سے دھوئیں کے بڑے بادل سرحد پار پاکستان تک پہنچ کر پہلے سے آلودہ فضا کو مزید خراب کرتے ہیں۔ پاکستان کو بھارت کو قائل کرنے کے لیے سفارتی سطح پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بھارت اپنے زرعی طریقوں کو زیادہ ماحول دوست بنائے۔ مثال کے طور پر، پاکستان بھارت کے ساتھ براہِ راست مذاکرات شروع کر سکتا ہے- اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر بھی پاکستان کو اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ عالمی برادری کو اس صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بھارت کے ساتھ مل کر مشترکہ تحقیق اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجاویز پر بھی کام کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے کاشتکار ملبے کو جلانے کے بجائے جدید طریقوں سے ہٹ کر اس کا استعمال کریں۔ اس طرح کے اقدامات سے سرحدی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور دونوں ممالک کے شہریوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
لاہور میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کا ایک اہم سبب اس کی آبادی کا زیادہ ہونا ہے۔ جتنی زیادہ آبادی ہوگی، اتنی ہی زیادہ گاڑیاں، صنعتیں اور توانائی کی ضرورت ہوگی، جو آلودگی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں لوگوں کو منتقل کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں متعارف کروائے جو وہاں روزگار اور کاروبار کے مواقع فراہم کریں۔ اس سے لاہور میں آبادی کا دباؤ کم ہوگا اور گاڑیوں اور صنعتوں سے ہونے والی آلودگی میں کمی آئے گی۔
لاہور میں موثر پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے شہری اپنی ذاتی گاڑیاں اور موٹر سائیکل استعمال کرنے پر مجبور ہیں، جو کہ فضائی آلودگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ایک جدید اور موثر عوامی نقل و حمل کے نظام کو متعارف کروانے کی ضرورت ہے جو الیکٹرک بسیں اور ٹرینوں پر مشتمل ہو۔ اورنج لائن کو مزید وسعت دینا اور زیادہ الیکٹرک بسیں اور ٹرام متعارف کروانا لوگوں کو ذاتی گاڑی کے بجائے عوامی ٹرانسپورٹ کو اپنانے پر راغب کرے گا۔
سڑکوں پر چلنے والی گاڑیاں فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب ہیں، خاص طور پر وہ گاڑیاں جو دھواں چھوڑتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی گاڑیوں کے لیے سخت قوانین متعارف کروائے، جیسے چیکنگ کے نظام کو موثر بنانا اور مقررہ حد سے زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھاری جرمانہ عائد کرنا۔ انسپکشن سٹیشنز کی تعداد بڑھانا بھی ضروری ہے تاکہ گاڑیوں کی حالت کو چیک کیا جا سکے۔ لاہور میں چلنے والے ہزاروں موٹر سائیکل اور رکشے فضا کو آلودہ کرنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے لیے الیکٹرک متبادل فراہم کرنا ایک موثر حل ہے۔ حکومت کو ایسی سبسڈی فراہم کرنی چاہیے جو موٹر سائیکل اور رکشے کے مالکان کو الیکٹرک آپشنز کی طرف راغب کرے، جس سے فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئے گی۔
فوسل فیول سے چلنے والی گاڑیاں ماحولیات کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس لیے الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کو فروغ دینا ضروری ہے۔ الیکٹرک کارز کی درآمد پر سبسڈی دینا، اور عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے لوگوں کو اس جانب مائل کرنا کہ وہ روایتی گاڑیوں کے بجائے الیکٹرک یا ہائبرڈ گاڑیاں خریدیں۔ سڑکوں پر ٹول اور پارکنگ چارجز بڑھانے سے لوگ ذاتی گاڑی کے بجائے عوامی ٹرانسپورٹ کو اپنانے پر مجبور ہوں گے۔ اسی طرح کار کی سالانہ رجسٹریشن فیس میں اضافہ کرنا بھی ایک موثر حکمت عملی ہے۔ اس سے ٹریفک کا دباؤ کم ہوگا اور آلودگی میں کمی آئے گی۔
پنجاب میں موجود کئی صنعتیں بغیر کسی فضائی آلودگی کے کنٹرول کے کام کر رہی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ یا تو ان صنعتوں کو شہر سے باہر منتقل کرے، یا پھر وہاں واٹر اسکریبر یا واٹر کرٹن جیسے آلات نصب کیے جائیں تاکہ فضا میں کم سے کم آلودگی خارج ہو۔ پاکستان میں بھی کاشتکار اپنے زرعی فضلے کو جلا کر ماحول میں آلودگی بڑھاتے ہیں۔ اس کے بجائے اس فضلے کو بجلی پیدا کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے نہ صرف فضائی آلودگی میں کمی آئے گی بلکہ توانائی کا بھی ایک اضافی ذریعہ فراہم ہوگا۔
پاکستان کی وفاقی حکومت اور خصوصا پنجاب حکومت کو بڑے پیمانے پر شجرکاری کرنے کی ضرورت ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں، جس سے ہوا کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے۔ لاہور میں بڑے پیمانے پر درخت لگانا، خاص طور پر سڑکوں کے کنارے اور عوامی مقامات پر، فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
توانائی کے متبادل ذرائع کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پانی، جوہری، شمسی اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں کو فروغ دے کرفوسل فیول پر انحصار کم کرنا چاہیے۔ عوام کو فضائی آلودگی اور اس کے اثرات سے آگاہ کرنا اور انہیں اپنے کردار کی اہمیت کا احساس دلانا بھی بہت ضروری ہے۔
پاکستان، اور خاص طور پر لاہور میں، فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اگر حکومت اور عوام مل کر ان اقدامات پر عمل کریں تو فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور لاہور کی فضا کو دوبارہ صاف اور صحت مند بنایا جا سکتا ہے۔ آگر آج بھی اس پر کام شروع کیا جائے تو مطلوبہ نتائج لینے میں کم ازکم دو تین سال لگ جائیں گے اور ایک صحت مند ماحول کے لیے تو اس سے ذیادہ عرصہ درکار ہے۔