پاکستان کاغیرمعیاری نظام تعلیم
پاکستان کا نظام تعلیم بھی انتہائی غیر معیاری اور تباہ حالی کا شکار ہے۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پبلک سکولوں کا معیار بہت ناقص ہو چکا ہے جبکہ پرائیوٹ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کے نام پر خوب لُوٹ مار ہو رہی ہے۔ پاکستان میں جدید اصولوں کے تحت حکومتی سکولوں کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اب تو سکائپ اور AI کی مدد سے سکولوں میں معیاری اساتذہ کی کمی بھی پوری کی جاسکتی ہے۔ سکولوں میں انسٹرکٹر رکھ کر اُن سے کام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے بچوں کو ہنرمند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ غیرضروری مضامین پڑھنے کی بجائے ایسی تعلیم سیکھیں جس کا ان کو پروفیشنل زندگی میں فائدہ ہو۔ اور وہ ہنر سیکھ کرملک اور ملک سے باہر ملازمت تلاش کرنے کے اہل ہو سکیں۔ تعلیمی نظام میں سب سے ذیادہ توجہ شخصیت سازی پردینے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک اچھا شہری بنانا بھی ضروری ہے۔ خاص کرکے لوگوں کو کس طرح سے ڈیل کیا جائے یہ بہت ضروری ہے۔ نطام تعلیم میں ایک کامیاب اور مضبو ط شخص بننے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اِس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے آج کے تعلیمی نظام میں وقت کا ضیاع بہت زیادہ ہے۔ بچوں کو غیر ضروری مضمون پڑھائے جاتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی بچہ گھر سے نکلتا ہے تو اِسے اردو سیکھنی پڑتی ہے کیوں کہ ملک کی اکثریت کی مادری زبان پنجابی، پشتو ، بلوچی ،سندھی ،بلتی، کشمیری یا کوئی اور ہوتی ہے۔ اردو سیھکنے میں تو اُسے اتنی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیوں کہ تعلیمی ماحول میں ذیادہ تر اردو بولی جاتی ہے۔ بچوں کو ذیادہ پریشانی انگریزی سیکھنے میں آتی ہے کیوں کے یہ ذیادہ تر گھرانوں میں عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ اب تعلیمی اداروں میں عربی اور چائنیز بھی سکھائی جاتی ہے جو کہ بچوں پرایک بوجھ ہے اور ان کا مستقبل میں کام آنا بھی مُشکل ہے۔ ان ذبانوں کا سیکھنا لازمی نہین ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بچہ یہ زبانیں سیکھنا چاہے تویہ الگ بات ہے۔
بچوں کو مذہبی تعلیم دینا بھی بہت ضروری ہے۔ مگر اس کی ذمہ داری والدین پر ہونی چاہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بیشتر والدین قرآن کی تعلیم گھرو ں پر دلواتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامیات پڑھانے کا سلسلہ بھی گھروں سے ہونا چاہیے۔ مگر یہ تعلیم عمر کے حساب سے ہونی چاہیے۔ اور سلیبس کے مطابق ہونی چاہیے۔ اور اسی کے مطابق امتحان بھی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے سسٹم میں قرآن کا مفہوم سمجھانے کی بجائے سارا زور تلفظ پر لگا دیا جاتا ہے جب کہ قرآن کا اصل مقصد نہیں سمجھایا جاتا۔
بچوں کو پڑھنے کا طریقہ سیکھانا تاکہ وہ کم سے کم وقت میں ذیادہ سیکھ سکیں بہت ضروری ہے۔ اُن کے لکھنے کی صلاحیت کو بہتر کرنا اور بول چال میں خود اعتمادی دینا بھی بہت ضروری ہے ۔ یہ چیزیں بچوں کو شروع سے ہی سیکھانی چاہیے۔ آج کل بچوں کو نوٹس پکڑا کر رٹا پر لگا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچوں میں سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ ہی بچے جب پیشہ ور زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں شدید مُشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔ کیوں کے ان بچون کو ریسرچ کی عادت نہیں ہوتی شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے براپر ہے۔