پاکستان کا مظلوم کسان
یوں محسوس ہوتا ہے کہ غریب کسان پاکستان کا مظلوم ترین طبقہ ہے۔ پہلے بڑے جاگیر دار قرضہ لے جاتے ہیں۔ پانی کی باری آتی ہے تو بھی بڑا جاگیر دار فائدہ لے جاتا ہے۔ بیج ہو یا کھاد جب وقت آتا ہے تو کھاد کی کُمپنیاں ساری سبسڈی لے کر بھی وہ اور ان کے ایجنٹ دُنیا کی مہنگی ترین کھاد کسانوں کو دیتے ہیں۔ یہ ہی حال دوائیوں کے وقت پیش آتی ہے۔ مہنگی ہونا تو الک بات ہے یہ اشیاء وقت پر مارکیٹ سے ہی غائب ہو جاتی ہیں۔ کسان بیچارے کو بلیک مارکیٹ سے کھاد اور دوائیں خریدنی پڑتی ہیں اور ان کو مزید دس سے بیس فیصد رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ اور جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو چاہے وہ گنا ہو یا کپاس یا گندم کوئی نہ کوئی ایسا کھیل کھیلا جاتا ہے جس سے آڑھتی طبقہ بہت کم بھاؤ میں کسان سے فصل خرید لیتا ہے۔ یہ کوئی ایک دودفعہ کی کہانی نہیں بلکہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس میں چھوٹا کسان سالوں سال سے پھنسا ہوا ہے۔
اگر کھاد کے حالات دیکھے جائیں تو بھارت میں 50 کلو کھاد کی بوری سات ہزار پاکستانی روپے کی ہے۔ اِس میں اسے 2400 روپے کی سبسڈی کے بعد 3700 پاکستانی روپے کی ملتی ہے۔ اس وقت بین الاقوامی منڈی میں کھاد کی بوری کی قیمت 7000 پاکستانی روپے کی ہے۔ پاکستان میں یہ ہی بوری 11000 کے قریب فروخت ہو رہی ہے جو چند دنوں پہلے تک 15000 روپے فی بوری کے حساب سے بلیک میں فروخت ہو رہی تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کھاد کی کُمپنیاں ہر سال گیس اور دیگر چیزوں کی مد میں اربوں روپے کی سبسڈی حاصل کرتی ہیں۔ حکومت اگر ایک ارب ڈالر کی گندم منگوانے کی بجائے ایک ارب ڈالر کی کھاد منگوا لیتی تو کسان کی زندگی میں بہتری آ جاتی اور زرعی شعبہ کو بھی فائدہ ہوتا کیونکہ بین الاقوامی منڈی میں کھاد آدھی سے بھی کم قیمت پر دستیاب ہے۔ مگر ایسا ہوتا ممکن نہیں کیونکہ دُنیا کا کاروبار طاقتور لوگوں کےہاتھ میں ہوتے ہیں اور جو کچھ بھی ہو آخر میں فیصلے بھی اُن کی مرضی سے ہی ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دُنیا کے بڑے بڑے مملک بھی کارپوریشنوں کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں غریب کسان کی داد رسی کہیں پر ممکن نہیں اسلیے وہ ہر سال استحصال کا شکار ہوتے آئیں ہیں اور مستقبل میں بھی بہتری کے آثار کم ہی ہیں۔