پاکستان کی معشیت کو پاکستان سے چلائیں
پاکستان میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکثریتی کاروبار پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی پاکستانیوں کے کنٹرول میں نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 60 فیصد کاروبار ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کاروبار ایک تہائی کے قریب افغانستان اور خلیجی ممالک سے کنٹرول ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال ایرانی تیل کی اسمگلنگ اور افغان ٹرانزیٹ کی وجہ سے اربوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ ذخیرہ اندوزی سے ملک کو الگ نقصان پہنچ رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کوششیں تو شروع کی ہیں۔ مگر یہ سب مسائل ایک کوئی ایک مہینہ میں حل نہیں ہوں گے۔ یہ برسوں کا گند ہے جو ہوتے ہوتے ہی صاف ہوگا۔ یہ سارا گند پچھلے بیس تیس سال کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ مگر کسی نے بھی ان مسائل کو حل کرنے پر توجہ نہیں دی اور آہستہ آہستہ یہ مسائل گھمبیر ہوتے گئے۔ اب یہ اربوں بلکہ شاید کھربوں کا گھن چکر ہے۔ اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہر حکومت ان کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے ذاتی فائدے کو ترجیح دیتی رہی۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسائل پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ یا تو پاکستان کی معیشت بچے گی جس پر 22 کروڑ افراد ک دارومدار ہے۔ یا پھر چند ہزار یا لاکھ افراد کا مافیا اپنا کھیل جاری رکھے گا۔
پاکستان کو چلانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں صرف ملک کو اس طرح چلایا جائے جس طرح ملک چلتے ہیں۔ ادارے مضبوط ہونےچاہیے۔ اداروں کے اندر دھڑے بندی ملک کے لیے خطرناک ہے اس کا اندازہ اب سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اچھی طرح ہوگیا ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ آئین اور قانون کی عملداری نہیں ہے۔ پاکستان کی سرحدوں پر سمگلنگ مافیا کا راج ہے تو شہروں میں جرائم پیشہ افراد دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھے کے علاقے میں ڈاکوؤن کاراج ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ سے لے کر اینٹی ائیر کرافٹ گن تک سب موجود ہے ۔ ان حالات میں جہاں ہر طرف اور ہر سطح پر لوٹ مار۔ بے ایمانی اورافراتفری ہو وہاں ملک کے لیے ترقی کر سکتا ہے۔ حکومت اگر اس سارے نظام کو ٹھیک کر لے تو ملک کے حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔ مگر برسوں کے اِس گند کو جسکی جڑیں بہت مضبوط ہو چُکی ہیں۔ اب ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ اگر موجودہ حکومت اسی ثابت قدمی سے عملی اقدام اُٹھاتی رہی تو اس سے حالات میں یقنیاً بہتری آئے گی۔ مگر اب تمام جماعتوں اور اداروں کو متفق ہو کر اِس پالیسی کو مستقل بنیادوں پر چلانا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان پر ڈیفالٹ کی تلوار مسلسل لٹکتی رہی ہےاور بہت ممکن ہے کہ اس سے بچنے کا جو موقع ہمیں اب ملا ہے وہ مستقبل میں نہ ملے گا۔
آ