پی ائی اے نجکاری کے قریب
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کوئی دس کے قریب کمپنیوں نے پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ ان کمپنیوں میں دو نجی ائیرلائنز بھی ہیں۔ اگر چہ کہا جا رہا تھا کہ پی آئی اے کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے کوئی اِس کو نہیں خریدے گا۔ کیونکہ اسکے دو بڑے مسئلے تھے۔
پہلا مسئلہ 700 ارب روپے کا قرضہ تھا جو کوئی بھی لینے کے لئیے تیار نہیں تھا جب کے پی آئی اے کے کُل اثاثے صرف 150 ارب روپے کے ہیں۔ حکومت نے اِس کا حل یہ نکالا کہ یہ 700 ارب روپے کے قرضے ایک اور کمپنی بنا کر اپنے کھاتے میں ڈال لئیے۔ جو کہ ایک صحیح فیصلہ ہے۔ کیونکہ ہر سال 90 ارب روپے کا خسارہ اِس قرضہ میں مزید اضافہ کررہا تھا۔
پی آئی کا دوسرا مسئلہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گے ملازمین کا ہے۔ جس میں اہلیت کا فقدان تو ہے ہی مگر اِس کے ساتھ ساتھ اِس کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ زیادہ تر ائیر لائنز میں ایک جہاز پر اوسطً 200 افراد کا عملہ ہوتا ہے۔ ترکش ائیر لائن میں تو ایک جہاز پر 90 افراد کے عملے کی اوسط ہے مگر پی آئی اے پر یہ اوسط 500 کی ہے۔ بہر حال یہ واضح نہیں ہے کہ اِس عملے کا کیا ہو گا۔ کیا کمپنی ان افراد کو ایک سال کے بعد فارغ کرنے کی مجاز ہو گی۔ بہر حال یہ بات واضح ہے کہ اِس عملہ کے ساتھ ائیر لائن میں بہتری نہیں آ سکتی۔
پی آئی اے کو تباہ کرنے میں پچھلے تیس سالوں میں اِس کو چلانے والوں کا ہاتھ ہے۔ جہازوں کی لیز سے لے کر کوئی فیصلہ کمپنی کے مفاد میں نہیں کیا گیا ۔ اگر کسی ایک انتظامیہ نے پی آئی اے کو بہتر کرنے کی کوشش کی تو اگلی انتظامیہ نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ اگر نیک نیتی سے پی آئی اے کو چلایا جاتا تو یہ کبھی بھی 700 ارب روپے کا مقروض نہ ہوتا ۔
پی آئی اے کو حاصل کرنے والی کمپنی کو کئی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ ہماری آبادی 24 کروڑ ہے جہاں سالانہ پچاس لاکھ کے لگ بھگ افراد اندرون ملک اور بیرون ملک سفر کرتے ہیں ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں۔ اگر پی آئی اے کے یہ حالات نہ ہوتے تو لوگوں کی اکثریت پی آئی اے سے سفر کر رہی ہوتی۔ اسکے علاوہ پاکستان کے 80 سے زائد ممالک سے ہوابازی کا معاہدہ ہے اسلیے کمپنی کو یہ فائدہ بھی ہوگا۔ ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی اور مقامی کمپنیاں پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کررہی ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اسمیں کوئی شک نہیں کی اس نجکاری کے بعد نہ صرف سالانہ نوے ارب روپے کی بچت ہوگی بلکہ پی آئی اے میں نہ صرف خاطر خواہ بہتری آئے گی اور اس سے حکومت کو کچھ آمدنی بھی حاصل ہوگی۔ ابھی پی آئی اے نجکاری مکمل نہیں ہوئی اور اسکا شیئر کئی گُنا بڑھ چکا ہے۔
ی