کالا دھن اور پاکستان کی تباہ حال معشیت
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے حالات گھمبیر ہیں۔ یہاں ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے۔ لاقانونیت حد سے زیادہ ہے۔ عرصہ تک ملک میں ہونے والے بگاڑ کو چھُپایا جا رہا تھا۔ حیرت اِس بات پر ہے کہ ملک آہستہ آہستہ تباہی کی طرف جا رہا تھا اور کوئی بھی ان مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ پاکستان جن معاشی مسائل میں دھنسا ہوا تھا اِس سے نکلنا کوئی معجزہ سے کم نہیں تھا۔
کہا جاتا ہے کہ افغان ٹریڈ سے پاکستان کو سالانہ چار سے چھ ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو رہا تھا۔ یہ رقم پاکستان روپے میں چھ سو ارب روپے بنتی ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق یہ رقم اِس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایران سے ہونے والی سمگلنگ بھی بہت زیادہ ہے۔ اس میں ایرانی پیٹرول کا حجم بہت زیادہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس سمگلنگ میں کم از کم 27،000 گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ اس تیل کی وجہ سے نہ صرف حکومت پاکستان کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ بلکہ جو کمپنیا ں تیل درآمد کر رہی ہیں اُن کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات بھی ایران سے لائی جارہی ہیں اور ہماری تھوک کی مارکیٹ ایرانی اشیاء سے بھری ہوئی ہیں۔ سونے کی سمگلنگ کا ذکر بھی گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے۔ اس ضمن بھی پاکستان کو بہت نقصان ہورہا ہے۔
سمگلنگ کے بعد جو بڑا فراڈ پاکستان میں ہوتا ہے وہ انڈر انوئسنگ اور اوورانوائسنگ کے ذریعے کیا جا تا ہے۔ پاکستان سے زیادہ مالیت کا سامان کم مالیت کا ظاہر کر کے بھیجا جاتا ہے اسی طرح کم مالیت کا سامان منگوا کر اُس سے کہیں زیادہ ڈالر باہر بجھوا دئیے جاتے ہیں۔ جعلی لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کا دھندا بھی بُہت پُرانا ہے۔ عموماً کاروباری لوگوں نے باہر کے ممالک میں دفتر کھولے ہوئے ہیں جہاں سے وہ پاکستان سے سامان خریدتے اور بیچتے ہیں اور وہاں سے ہی سب فراڈ کیا جاتا ہے۔ حکومت نے اس جانب کچھ اقدام کئے ہیں مگر مزید اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔
حکومتی سرپرستی میں چلنے والے ادارے بھی ہر سال حکومت کو کما کر دینے کی بجائے 500 ارب سے زائد رقم حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ پی آئی اے مسلسل قرضے اور حکومتی فنڈ لینے کے باوجود تباہ حالی کا شکار ہے۔ سٹیل مل کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے اوپر قرضے کی بھرمار ہے اور اسکوفروخت کر کے بھی یہ قرضہ نہیں اُتارہ جا سکتا۔ ان حالات میں یا تو اس کو کسی کو چلانے کے لیے دے دینا چاہیے یا پھر تالا لگا دینا چاہیے۔ حکومت کا ان اداروں سے جان چھُڑانے کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے اب ان اداروں سے جلد از جلد جان چھڑا لینی چاہیے۔
بجلی کے شعبہ میں صرف بجلی کی ترسیل میں 600 ارب روپے کے نقصانات ہیں۔ آئی پی پی کے ساتھ جس طرح کے معاہدے کئے گئے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی ۔ صرف بجلی کے شعبے نے پاکستان کی معیشت کو یرغمال کیا ہوا ہے۔ خواہ وہ ہو یا کاروباری طبقہ یا عام عوام ۔ سب بجلی کے شعبے میں لوٹ مار کی وجہ سے پریشان ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے لئے ان معاہدوں سے فوری طور پر جان چھُڑانا ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آہستہ آہستہ ان معاہدوں کو ملکی مفاد میں تبدیل کرے کے لیے اپنا اثررسُوخ استعمال کرے۔ اس کے علاوہ تیل، گیس اور درآمدی کوئلہ کے استعمال کو ختم کیا جائے۔
پاکستان میں غیر ملکی کرنسی کی جس طرح لُوٹ مار ہو رہی تھی اِس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ اگر یہ سلسلہ اِس طرح جاری رہتا تو آج ڈالر چار سو رپے کی حد پار کر چکا ہوتا بلکہ شاید پانچ سو روپے کے قریب ہوتا۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ وہ لوٹ مار تھی جس میں نہ صرف پاکستانی بلکہ غیر ملکی بھی شامل تھے۔ حکومت اور ملکی اداروں نے انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس لوٹ مار کو ختم کیا۔ ابھی بھی کہا جاتا ہے کہ غیر ملکی کرنسی باہر لے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اگر اِس شعبہ میں ہونے والی لوٹ مار کا خاتمہ کر دیا جائے تو اِس سے نہ صرف ملکی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی بلکہ عوام کی زندگیوں میں بھی سُکون آئے گا۔
ٹیکس کا شعبہ بھی ایسا ہے جس میں حکومت پالیسیوں کی وجہ سے اربوں روپے کی لوٹ مار ہوتی ہے۔ پاکستان میں نادرا کا سسٹم بہت اچھا ہے۔ اگر اسکو استعمال کرتے ہوئے ٹیکس عائد کیا جائے تو پاکستا ن میں ٹیکس کی شرح دوگنی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسکے علاوہ تمام پاکستانیوں کے لئے لازم ہونا چاہیے کے ٹیکس بھرتے ہوئے پاکستان اور پاکستان سے باہر تمام اثاثے ظاہرکریں۔
رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بھی باقی شعبوں کی طرح مادر پدر آزاد ہے۔ رئیل اسٹیٹ میں جس طرح لوگوں کو لوٹا جاتا ہے اِس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ اگر کسی کے پاس ہزار پلاٹ ہیں تو وہ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں پلاٹ مارکیٹ میں بیچ دیتا ہے۔ بے نامی فائلوں کی وجہ سے بھی ان فائلوں کی لین دین کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو لٹنےسے بچانے کے لئے اور اربوں روپے کی ٹیکس چوری روکنے کے لئے ا،س شعبہ میں پالیسی سازی کی جائے۔
ہمارے سامنے مثال موجود ہے کہ جب ہمارے اہل اقتدار نے ڈالر مافیا کو قابو کرنے کا فیصلہ کیا اور اِس جانب عملی اقدام لیے تو اس کا نتیجہ ملکی مفاد میں ہی آیا۔ ڈالر پچھلے چند ہفتوں میں 337 روپے سے 279 روپے پر آگیا ہے اور مسلسل نیچے کی جانب اس کا سفر جاری ہے۔ اسی طرح اگر باقی شعبوں کےمسائل بھی اسی طرح حل کئے جائیں تو ملک کی معیشت نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی بلکہ ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہو جائے گا جس سے پاکستان میں معاشی ترقی ہو گی اور ملک ہمیشہ کے لیے صحیح معنوں میں کشکول توڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔