LatestPakistan

کیا پاکستان کو ایک معاشی کمیشن کی ضرورت ہے؟

ورلڈ بنک نے پاکستان کی معاشیات کو درپیش چھ مسائل کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے سب سے پہلا مسئلہ معاشی منصوبہ بندی میں تسلسل کا نہ ہونا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس نے پاکستان کی معاشی تباہی میں اہم کردار ادا کیا۔ پچھلے تیس چالیس سال کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کے پاکستان میں ہر وقت سیاسی بھونچال ہی رہا ہے۔ کئی حکومتیں تو اپنی مدت بھی پوری نہ کرسکیں ہر حکومت کی توجہ اس بات پر تھی کے حکومت کو کیسے بچایا جاۓ۔ اپنے دور میں ہر کسی نے اپنی من پسند پالیسیاں بنائی اور اکثر اوقات ماضی کی حکومت کے منصوبوں کو ختم کردیا جس سے اربوں روپے ضائع ہوے۔ اگر کوئی صنعت کاری کو فروغ دینا چاہتا تھا تو کوئی زراعت کی طرف راغب تھا اورکوئی سروسز کی انڈسڑی کو فوقیت دینا چاہتا تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان کی معاشیت کی تباہ حالی کوئی تعجب کی بات نہیں۔ پچھلے چالیس سال کی سیاست کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں سیاسی استحکام کی اُمید رکھنا بھی کوئی ذیادہ اُمید افزا نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کے ماضی میں جسطرح کے لوگ ہماری معشیت کو چلاتے رہے ہیں وہ یا تو بین الاقوامی اداروں کے زیر اثر تھے یا معاشی مسائل اور بدلتی ہوئی دُنیا کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اسطرح انھوں نے بھی ملکی معشیت کو تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کے پاکستان میں معاشیت کے لیے ایک کمیشن ہونا چاہیے۔ معاشی منصوبہ بندی کمیشن کے بارے میں ماہرین کی مختلف اراء ہیں۔

اقتصادیات، مالیات اور دیگر متعلقہ شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن اقتصادی پالیسی کے بارے میں زیادہ صیع اور باخبر فیصلے کر سکتا ہے۔ قلیل مدتی سیاسی چکروں کے دباؤ سے آزاد کمیشن اقتصادی ترقی پر زیادہ طویل مدتی نقطہ نظر لے سکتا ہے جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔ ایک آزاد کمیشن معاشی پالیسی میں تسلسل اور مستقل مزاجی فراہم کر سکتا ہے، یہاں تک کہ جب حکومتیں تبدیل ہوں تب بھی ملکی اور بین الاقوامی اداروں اور ممالک کو نئی حکومت کی پالیسیوں سے کوئی نمایاں تبدیلی کا خطرہ نہیں ہوگا۔ ایک کمیشن سرکاری اداروں سے زیادہ عوامی جانچ پڑتال اور اپنی پالیسی کے بارے میں جوابدہ ہو گا۔

آزاد پلاننگ کمیشن کے خلاف دلائل میں کہا جاتا ہے کے ایک آزاد کمیشن عوام کے سامنے اتنا جوابدہ نہیں ہو سکتا جتنا کہ سرکاری ادارے ہوتے ہیں۔ ایک آزاد کمیشن کے پاس سرکاری اداروں کے برابر سیاسی جواز نہیں ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی سفارشات پر عمل درآمد مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک آزاد کمیشن اپنی سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی طاقت کی کمی یا دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ ہم آہنگی نہ کرنے کی وجہ سے غیر موثر ہو سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ایک آزاد کمیشن حکومت کی سیاسی ترجیحات کے لیے بھی مدد نہیں کرسکتا۔ بہرحال ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو کچھ نہ کچھ تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی فرد واحد آکر ملک کے ساتھ کھلواڑنہ کرے۔

بعض تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشیتوں میں تسلسل کے لیے کوئی نہ کوئی کمیشن ہے۔ چین میں نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن (این ڈی آر سی) ایک طاقتور ادارہ ہے جو چین کی اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، NDRC بالآخر چینی کمیونسٹ پارٹی اور ریاستی کونسل کو جوابدہ ہے۔ ہندوستان کا منصوبہ بندی کمیشن 1950 میں ملک کی ترقی کے لیے پانچ سالہ منصوبے بنانے اور ان پر عمل درآمد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ 2014 میں، پلاننگ کمیشن کی جگہ نیتی آیوگ نے لے لی، جو ایک زیادہ مشاورتی ادارہ ہے۔ فرانس کی اقتصادی منصوبہ بندی کی ایک طویل تاریخ ہے، 1946 میں ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ تاہم حالیہ برسوں میں اس کمیشن کا کردار کم ہو گیا ہے، اور اب یہ بنیادی طور پر حکومت کو مشورے اور تجزیہ فراہم کرتا ہے۔ .

بہرحال پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو ایک میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ ہماری معشیت اب اس نہج پرکھڑی ہے جہاں مزید کھلواڑ کی گنجائش نہیں ہے اور ہر قدم سوچ سمجھ کر رکھنا پڑے گا۔