گندم درامد کرنے کا فیصلہ غلط یا صیح؟
سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کو ملک و قوم کے لیئے بہترین فیصلہ قرار دیا۔ اُنہوں نے اِس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ اُن پر کمیشن کھانے کا الزام لگایا گیا۔ جہاں تک کمیشن لینے دینے کا سوال ہے تو اِس بارے میں جب تک ٹھوس شواہد نہ ہوں الزام لگانا جائز نہیں مگر کاکڑ صاحب کا یہ کہنا کہ گندم درآمد کرنا بہترین فیصلہ تھا یہ سرا سر غلط ہے۔ معاشی اعتبار سے اِس کی کوئی عقل نہیں بنتی کے جس ملک کو ایک ایک ڈالر مانگ کر گزارا کر نا پڑ رہا ہو وہ ایک ارب ڈالر ایک ایسی شے پر ہی خرچ کر دے جو ملکی وسائل سے ہی پوری کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک غریب عوام کا تعلق ہے تو ان کو سبسڈی دے کر بھی سستا آٹا فراہم کیا جا سکتا ہے مگر اب ایک ارب ڈالر کدھر سے لائیں گے۔
ساری قوم کو پتہ ہے کہ آئی ایم ایف نے کس طرح ایک ارب ڈالر کے لیئے پاکستانی معیشت دانوں سے ناک رگڑوائی ہے۔ اگر پاکستان سستی گندم باہر سے حاصل کر سکتا ہے تو پھر پاکستان میں گندم کی کاشت کو بند کر دینا چاہیئے۔ اِس وقت پاکستان میں گندم کی قیمت 3900 روپے فی من ہے۔ جبکہ بین الاقوامی منڈی میں یہ 2400 روپے من ہے۔ مگر کیا پاکستان کے پاس چا ر ، پانچ ارب ڈالر ہیں کہ وہ باہر سے گندم منگوا سکے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کی گندم مہنگی کیوں ہے تو اِس کا جواب ہے کہ بھارتی کسان کو کھاد کی بوری 3800 روپے کی ملتی ہے ۔ باقی 2500 روپے کی سبسڈی بھارتی حکومت دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں کھاد کی بوری 7000 روپے کی ہے۔ پاکستانی کسان کو یہ بوری 15000 روپے تک خریدنی پڑتی ہے۔ بھارتی کسان کو ٹیوب ویل کا بل دو سو روپے پاکستانی کے برابر ماہانہ دینا پڑتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں یہ ہی بل آج کل لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ اِسی طرح بھارتی کسان کو بیج اور ادویات بھی تقریبا ً آدھی قیمت پر ملتی ہیں۔ اِس طرح بھارتی کسان کو فی ایکیڑ خرچہ پاکستان روپوں میں ایک لاکھ بیس ہزار کم آتا ہے اسکے باوجود بھارتی کسان پھر بھی سراپا احتجاج ہے۔ پاکستان میں کاشت کار بیج، کھاد اور ادویات کے مافیا کے ہاتھوں پھنسا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ عین موقع پر بیجوں ، کھاد اور ادویات کی قلت پیدا کر کے کسان کو الگ لوٹا جاتا ہے۔ ان اشیاء میں ملاوٹ بھی عام ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ پاکستان میں فی ایکٹر پیدا وار 20 سے 30 فیصد کم ہے۔ اِن سارے مافیوں سے لُٹنے کے بعد کسانوں کو آڑھتیوں کے ہاتھوں میں دھکا دے دیا جاتا ہے۔
انوارالحق کاکڑ کی بات کو صحیح مان لیا جائے تو پھر پاکستان ایران کا بارڈر بھی کھول دینا چاہیے اِس سے پاکستانیوں کو پیٹرول 150روپے لیٹر میں مل جائے گا ۔ بھارت سے بھی سستی چیز لے لیں۔ پاکستانیوں کو جو گاڑی چوبیس پچیس لاکھ روپے میں ملتی ہے وہی گاڑی دس بارہ لاکھ میں مل جائے گی۔ بھارت سے کھاد کی بوری بھی آدھی قیمت پر آجائے گی۔ چین سے بھی بلا تعطل سستی چیزین منگوائی جا سکتی ہیں۔ ان اقدایم سے ہر چیز کی قیمت کم ہو جائیگی اور پاکستانی عوام کی زندگی میں بہتری آ جائے گی۔ جہاں سستی چیزیں لانے کی ضرورت ہے وہاں تو حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور غریب کسان کو تباہ کرنے والے فیصلے کو صحیح قرار دے رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کے ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ کاکڑ صاحب جو بھی کہیں یہ فیصلہ صیح نہیں تھا اور یہ فیصلہ کسانوں اور پاکستانی معیشت دونوں کے لیئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔