ہمارے معاشرے میں ملاوٹ کا ناسور
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر ہر چیز میں ملاوٹ اور جعل سازی کھلے عام کی جارہی ہے.ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دودھ میں گندے پانی کے ساتھ ساتھ کم از کم درجن بھر کے قریب مضر صحت اجزاء ملائے جاتے ہیں کہیں کہیں تو کیمیکل کے ذریعے دودھ ملا کر بیچا جارہا ہے یہ صورت حال خاصی پریشان کُن ہے پاکستان میں پہلے ہی صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھاجارہا۔ ہیپا ٹائٹس عام ہے ایک رپورٹ کے مطابق بعض علاقوں میں ہیپا ٹائٹس کی شرح تیس فیصد تک ہے کھانے کے تیل میں بھی کئی قسم کی ملاوٹ ہے- حتی کے بعض جگہوں میں تو موبل آئل صاف کرکے ملانے کی بھی خبریں ہیں۔
پام آئل جو کہ بڑی مقدار میں استعمال ہوتاہے وہ بھی صحت کیلئے اچھا نہیں سمجھا جاتا. اگر دیکھا جائے تو ہم تیزی سے بیمار معاشرہ بنتے جارہے ہیں. جس وافر تعداد میں پاکستان میں میڈیکل سٹور اور ہسپتال بن رہے ہیں اس سے تو یوںمعلوم ہوتا ہے جیسے ساری قوم بیمار ہے. ہر چھوٹی بڑی مارکیٹ میں آپ کو ایک کیمسٹ ملے گا۔جس ملک میں آب و ہوا سے لیکر کھانے پینے کی ہر چیز میں ملاوٹ ہو۔صفائی نام کی چیز ناپید ہوچکی ہو لوگوں کو تلی ہوئی مرغن غذاکےعلاوہ کچھ پسند نہ ہو۔ورزش کو ملک کی اکثریت وقت کا ضیاع سمجھتی ہو. ایسےمعاشرے میں بیماریوں کا عام ہونا کوئی حیرانی نہیں۔ ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت ایک جامع منصوبے کے تحت ملاوٹ کو ختم کرے.
ابھی کچھ دنوں پہلے حکومت نے ملک میں صحت مند معاشرے کیلئے مہم چلانے کا اعلان کیا تھا مگر اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد اس میں مزید کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔