آئی ایم ایف کی قسط کا نہ ختم ہونے والا معمہ
آئی ایم ایف کی قسط ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ کئی ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد اب حکومتی ارکان اور ماہر معاشیات سب اس بات پر متفق لگتے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قسط دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ حکومتی معاشی ٹیم اکثر یہ شکایت کرتی رہی ہے کہ آئی ایم ایف اپنی شرائط کو مسلسل تبدیل کررہا ہے۔ حکومت پاکستان شرائط کی ایک فہرست کو پورا کرتی ہے تو مزائد شرائط آ جاتی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ جب تک پاکستان تمام شرائط مان نہیں لیتا وہ قسط جاری نہیں کریں گے۔ آئی ایم ایف پاکستان کی حکومتوں پر بد دیانتی کا الزام لگاتا ہے۔ کیونکہ ماضی میں جب بھی حکومتوں نے آئی ایم ایف کی شرائط پر قرضہ لیا تو قسط ملنے کے بعد ان شرائط پر عمل نہیں کیا۔
دوسری جانب اسحاق ڈار کی حکمت عملی بھی انتہائی ناقص تھی اور اُن کی بے جا خود اعتمادی بلکہ خوش فہمی کی وجہ سے آج ملکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے۔ ابھی بھی حکومت سبسڈی کا اعلان کر دیتی تو آئی ایم ایف کو اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا جارہا ہے۔
افواہوں کا بازار الگ گرم ہے ۔ اسحاق ڈار کے بیان نے یوں تاثر دیا کہ پاکستان کو قسط اس لیے نہیں دی جار ہی کہ پاکستان مزائل اور ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان نے بھی ایک تقریر میں پاکستان کے جوہری اور مزائل پروگرام کو چدید خطرات میں گھرا ہوا قرار دیا۔
یہ بھی افواہیں ہیں کہ مغرب پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کرانے، کشمیر کی موجودہ صورتحال کو مستقل کرنا، سی پیک کو ختم کرنا وغیرہ شامل ہے۔ اصل صورتحال کا علم تو حکومت کو ہو گا۔ مگر کوئی تو وجوہات ہیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف ابھی بھی قسط جاری نہیں کر رہا۔
ئی ایم ایف نے اب یہ شرط عائد کی ہے کہ پاکستان تمام بیرونی اداروں اور ممالک سے جو پاکستان کو مالی امداد فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اُن سے اِس ضمن میں یقین دہانی لے ۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی معیشت کئی بحرانوں میں گری ہوئی ہے اور جب تک آئی ایم ایف اس بات کا یقین نہیں کر لیتا کہ پاکستان اِس ضمن میں مفصل منصوبہ رکھتا ہے قرضے کی قسط جاری نہیں کی جائے گی۔ سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں چائنا سے فنڈز ملنے کے بعد اضافہ ہو گیا ہے اور یہ 4.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ فی الحال آئی ایم ایف کی تین شرائط ہیں جس میں پاکستان کو مستقبل قریب میں کیے جانے والے چھ ارب ڈالر کی یقین دہانی ، سود کی شرح میں مزید دو فیصد اضافہ کرنا اور اسکو22 فیصد کرنا ور موجودہ حکومت کے پیٹرول پر سبسڈی کے پروگرام پر آئی ایم ایف کو وضاحت دینا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف اِس سبسڈی سے خوش نہیں ہے۔
بہر حال اگر قسط جاری نہیں ہوتی تو اس صورت میں حکومت کو ابھی سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ہر حال میں سری لنکا جیسی صورتحال سے بچنا ہو گا۔ اگر چہ پاکستان نے بڑے پیمانے پر درآمدات کو کم کیا ہے مگر پیٹرول اور دوسرے اخراجات میں بھی حکومت کو کمی کرنے کے لیے کوشش کرنی ہو گی تاکہ پاکستان بین الاقوامی قرضو ں کی ادائیگی کر سکے۔ اگر چہ یہ آسان نہیں ہو گا مگر حکومت کو اِس ضمن میں ہر ممکن قدم اُٹھانا چاہیے۔