پاک ایران تجارت
پاکستان کے ایران کے ساتھ تجارت کوئی بڑے پیمانے پر تو نہیں ہو رہی مگر اس میں وسعت کے بہت امکان ہے جو دونوں ممالک کے لیے بہت فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ اسوقت پاکستان ایران کی تجارت کا حجم 1.5 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان اور ایران نے حال ہی میں 39 ایم او یوز پر دستخط کئے ہیں جن پر اگر عمل درآمد ہو جائے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم مختصر مدت کے اندر پانچ ارب ڈالر تک جا پہنے گا۔ ایران کے اوپر مغربی ممالک کی پابندیاں ایسا کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے خلیجی ممالک سے قریبی روابط اور تجارتی مفادات پاکستان کو بڑے پیمانے پر تجارت سے روکے ہوئے ہیں۔
ایران سے ہر سال بڑی مقدار میں پیٹرول اور ڈیزل پاکستان میں سمگل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی صحیح مالیت کا اندازہ تو کسی کو نہیں مگر بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس سے پاکستان کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ تیل کی اس سمگلنگ میں ایرانی اور پاکستانی دونوں طرف کے بااثر افراد ملوث ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں اطراف کے بیس لاکھ کے قریب افراد اس تجارت سے مستفید ہورہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی بلوچستان میں ملازمت کے مواقع بہت کم ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں غربت بہت زیادہ ہے۔ اسمگل شُدہ تیل بسوں کے خفیہ خانوں کے ذریعہ دوسرے صوبوں میں بھیجا جاتا ہے۔ زیادہ آبادی کی وجہ سے اس کی سب سے زیادہ کھپت پنجاب میں ہوتی ہے۔ اس کے بعد کے پی کے اور سندھ میں بھی یہ عام فروخت ہو رہا ہے۔
ایران نے پاکستان کو تیل کی فروخت کا حکومتی سطح پر معاہدہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے ۔ اوریہ سہولت بھی فراہم کرنے پر راضی ہے کہ پاکستان گندم، چاول اور دیگراجناس کے ذریعے اس کی ادائیگی کر دے۔ اب جبکہ خلیجی ممالک کے ایران سے تعلعقات بہتر ہو رہے ہیں تو اِ س بات کا امکان ہے کی پاکستان ایران کے ساتھ تجارت کو فروغ دے سکے ۔ مگر تیل کی درآمد پھر بھی آسان نہیں ہو گی۔ ۔جب تک مغربی ممالک ایران پر سے پابندی ختم نہیں کر دیتے یا پھر روس کی طرح پیٹرول بیچنے کی اجازت نہیں دے دیتے ۔