آگے آئی ایم ایف اور پیچھے کھائی
اگر کسی کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل کر کے پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوجائیگا تو یہ سوچ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ مگر دوسری طرف اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے بغیر موجودہ معاشی بُحران سے نکل سکتے ہیں تو یہ سوچ بھی حقیقت پر مبنی نہیں کیوں کے ایسا ممکن نہیں۔
پاکستان جس معاشی بُحران میں پھنس چُکا ہے اِس سے نکلنا آسان نہیں۔ اس کے لئے پاکستان کو تمام ممالک اور اداروں سے قرضہ لینے ہوں گے اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اور ادارہ پاکستان کو قرضہ نہیں دے گا جب تک پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط سے متفق نہیں ہوتا اور اس پر عمل درآمد نہیں کرتا۔
اسوقت پاکستان گردن تک ہر قسم کے مسائل میں پھنسا ہوا ہے۔ جو پاکستان کی سالمیت کے لئیے خطرہ بنے ہوئےہیں۔ معاشی تباہی کے ساتھ ساتھ دہشت گردی۔ لاقانونیت، کرپشن ، نااہلی، بیروزگاری اور غربت سب ہی نے پاکستان میں زندگی کو مُشکل بنا دی ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تعصب میں بھی اضافہ ہور ہا ہے۔ مگر اس وقت جو مسائل پاکستان کو آئی ایم ایف پر جانےپر مجبور کر رہے ہیں۔ ان میں پہلا مسئلہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کی کمی ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ پاکستان کو بیرون ملک پاکستانیوں سے ایک خطیر رقم آتی ہے۔ مگر پھر بھی تجارتی خسارہ کو پُورا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر سال قرضہ کی مد میں لی گئی رقوم کی واپسی کے لیے ہر سال مجموعی طور پر پاکستان کو پندرہ ارب ڈالر مزید چاہیے۔ جس کے لئیے حکومت کو آئی ایم ایف سے لے کر ہر ادارے اور ملک کے دروازے پر دستک دینی پڑرہی ہے۔
آئی ایم ایف عموما ً ترقی پذیر ممالک کو مسلسل اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرنا ، انتہائی ٹیکس عائد کرنا، شرح سُود کو اوپر رکھنا اور سبسڈی کو ختم کرنے پر زور دیتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ تمام اقدام ملک میں صنعتی ترقی کے لئیے صحیح نہیں ہوتے ۔ اِس کے علاوہ اگر چہ آئی ایم ایف اِس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ اپنے وسائل کے اندر گزارا کیا جائے مگر جب یہ ممالک درآمدات پر پابندی لگاتے ہیں تو اِس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ چونکہ ان ممالک کا خسارہ پورا نہیں ہوتا اِس لئیے یہ بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور رہتے ہیں۔
پاکستان کو مستقبل میں اگر آئی ایم ایف کے چُنگل سے نکلنا ہے تو ہمیں اِس کے لیے بہت کوشش کرنی ہوگی۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مہنگے بجلی کے پراجیکٹوں نے نہ صرف عوام کی کمر توڑ دی ہے بلکی اُس نے صنعتی شعبہ کو بھی بین الاقوامی سطح پر مقابلہ سے نکال دیا ہے ۔ چین ، انڈیا ، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں صنعت کاروں کو بجلی پاکستان کی نسبت بہت کم ریٹ پر ملتی ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر مہنگے بجلی گھر بند کر کے تھرکول ، پانی اور شمسی بجلی پر انحصار کرنا چاہیے۔
حکومت کو چاہیئے کہ پاکستان میں سمگلنگ، منی لانڈرنگ اور ہنڈی کے کاروبار کو بھی ختم کرے۔ اِس سے پاکستان کو اربوں ڈالر مل سکتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر بھی پابندی لگائی جائے۔ ملکی مصنوعات کو ترجیح دینی چاہیئے اور اِس ضمن میں مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے تاکہ نہ صرف ملکی ضرورت کو پُورا کیا جائے بلکہ پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہو۔ پاکستان کے معاشی مسائل کا حل ملکوں میں چھوٹی بڑی ہر طرح کی صنعتوں کا بڑے پیمانے پر قیام ہے۔ بدقسمتی سے اسوقت اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔