روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر سے عوام کے مسائل میں اضافہ
گزشتہ دو ہفتوں سے روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ حکومت اور عوام کو بہت اُمید تھی کہ جب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے گا اور پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل جائے گا تو ڈالر 180 پر آ جائے گا۔ اگرچہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کے بعد ڈالر کی قدر میں چند روز کمی ہوئی اور وہ ۱۱٦ تک نیچے آگیا مگر پچھلے تین ہفتوں سے ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور آج ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں ۲۴۵ روپے تھی۔ اگرچہ ڈالر کی قدر میں تمام کرنسیوں کے مقابلہ میں خاصہ اضافہ ہو رہا ہے مگر اسمیں روپے کی قدر میں بھی کمی ایک وجہ ہے۔
روپے کی قدر میں کمی سے ملک کی معشیت پر بُرا اثر تو پڑتا ہی ہے اس سے عوام کے لیے مُشکلات میں بہت ذیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کے بین الاقوامی منڈی میں پیٹرول اور کھانے کے تیل میں کمی کے باوجود ہمارے یہاں قیمتیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہیں۔ یہ وجہ ہے کے حکومت پیٹرول کی قیمت میں ایک روپے پچاس پیسے کا پھر اضافہ کر دیا ہے۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اسی طرح گردشی قرضہ ک جن بھی بے قابو ہے۔ سیلاب نے بھی ناقابل تصور حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ نقصان کا موجودہ تخمینہ 30 ارب ڈالر کے لگ بھگ لگایا گیا ہے۔ عالمی برادری پاکستان کی معیشت کے ساتھ ساتھ قدرتی آفات میں مدد کرتے کرتے تھک گئی ہے۔ گو کے یہ سیلاب 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب سے کہیں ذیادہ نقصان دہ ہے مگر ابھی تک حکومت کو ایک ارب ڈالر کی رقم نہیں ملی۔ اب عالمی برادری کو بھی معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ خاص طور پر یورپ کی معاشی حالت خراب ہے۔ یوکرین کی جنگ اور قرضے میں پھنسے ہوئے یورپی ممالک اپنی معیشتوں کو ٹھیک کرنے لگے ہوئے ہیں۔ اب ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے دُنیا کے لیے مزید مُشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ان حالات میں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پاکستان عالمی برادری سے زیادہ تعاون حاصل نہیں کر سکے گا۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کے اب عوام کو نہ تو کوئی نعرے سُننے ہیں اور نہ ہی ہمدردیاں ان کے مسائل کا کوئی حل ہے۔ اگر حکومت نے جلد عوام کے مسائل کا حل نہ نکالا تو پھر حکومت کا بچنا بہت مُشکل ہے۔ جس سمت میں حالات جارہے ہیں اس سے لگتا ہے کے حکومت کے پاس اب ذیادہ وقت نہیں ہے۔