سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ریکوڈیک معاہدے کے حق میں
سپریم کورٹ نے جمعہ کو حکومت پاکستان اور دو بین الاقوامی فرموں – اینٹوفاگاسٹا اور بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان ریکوڈک کان کنی کے منصوبے کی بحالی کے لیے کیے گئے معاہدے کو قانونی قرار دے دیا۔ ایک مختصر حکم میں، عدالت نے فیصلہ سُنایا کے "ریکوڈک منصوبے کی تشکیل نو کے عمل کو شفاف طریقے سے اور پوری تندہی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ معاہدہ کرنے والے قانون کے تحت ایسا کرنے کے مجاز ہیں اور انھوں نے ہی نے اس معاہدہ پر دستخط کیے ہیں۔
یہ کیس حکومت پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی (TCC) کے درمیان آسٹریلیا-پاکستان دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کی خلاف ورزی اور بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک مائن میں TCC کو کان کنی کے حقوق سے انکار پر کیا تھا۔ یہ کیس پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا تھا اور اسکی بنیاد پر پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا گیا۔ اگرچہ اس کیس میں بین الاقوامی کمپنیوں کا موقف بھی مکمل طور پر جائز نہیں تھا لیکن اس میں دو رائے نہیں کے اس سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا تھا۔ بین الاقوامی ثالثی کی عدالتوں میں بھی پاکستان اپنا کیس ہار گیا تھا جس کے بعد پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔
ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے جہاں تانبے اور سونے کے بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ایک انداذے کے مطابق یہاں 12.3 ملین ٹن تانبہ اور چھ لاکھ کلوگرام سونا موجود ہے۔ 1993 میں، آسٹریلوی کی کان کنی کی کمپنی بی ایچ پی بلیٹن (BHP) اور حکومت بلوچستان نے ریکوڈک کان سے تانبے اور سونا نکالنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے مطابق، بی ایچ پی کا اس منصوبے میں 75 فیصد حصہ تھا جبکہ حکومت بلوچستان کا حصہ 25 فیصد تھا۔ 2001 میں BHP نے یہ پراجیکٹ ایک اور کمپنی کے حوالے کردیا جس کو 2006 میں ٹیتھیان کاپر کمپنی TCC نے خرید لیا۔ ٹیتھیان کاپر کمپنی کینیڈا کی بیرک گولڈ اور چلی کی اینٹوفاگاسٹا معدنیات کے درمیان ایک معاہدہ کے بعد وجود میں آئی جسکا مقصد ریکوڈک پراجیکٹ پر کام کرنا تھا۔
فروری 2011 میں، TCC نے بلوچستان حکومت کے ساتھ مائننگ لیز کی درخواست جمع کرائی لیکن اسے نومبر 2011 میں بلوچستان حکومت نے مسترد کر دیا۔ مسترد کرنے کی بنیاد یہ تھی کہ حکومت چاہتی تھی کے سمیلٹنگ اور ریفائننگ پاکستان میں کی جائے، رائلٹی کی شرح میں اضافہ کیا جائے، مالیاتی ماڈل پر نظرثانی کی جائے، اور منصوبے میں مقامی آبادی کو شریک کیا جائے۔
نومبر 2011 میں، ٹی سی سی اس معاملے کو عالمی بینک کے پاس لے گیا اور بلوچستان حکومت کی جانب سے لیزنگ کی درخواست کو ٹھکرانے پر 11.43 ارب ڈالر کے ہرجانے کا دعوی دائر کر دیا۔ TCC کے مطابق، اس نے اس پراجیکٹ پر 22 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اس دوران جنوری 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا، جسکی وجہ بلوچستان حکومت کا اس معاہدے پر دستخط کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا تھا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ TCC کے پاس ریکوڈک میں کان کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔ ورلڈ بنک کے ثالثی کے ادارے نے پاکستان کے موقوف کو رد کرتے ہوئے پاکستان پر چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا۔ پاکستان مقررہ وقت میں جرمانے کی رقم کا 25 فیصد جمع نہ کروا سکا اور اس ضمن مین بینک گارنٹی یا ایل سی فراہم کرنے سے قاصر رہا، جس کے نتیجے میں 16 دسمبر 2020 کو برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائی کورٹ نے پی آئی اے کے کچھ اثاثوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا جس میں نیویارک کا روزویلٹ ہوٹل اور سینٹرل پیرس کا سکرائب ہوٹل کے علاوہ پی آئی اے کے 40 فیصد حصص بھی شامل تھے۔
حکومت پاکستان نے اس مسئلہ کے حل کے لیے TCC کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کر دیئے۔ مارچ 2022 میں، پاکستان نے ریکوڈک پروجیکٹ کی بحالی اور ترقی کے لیے TCC کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کر لیا۔ چلی کی فرم اینٹوفاگاسٹا اس منصوبے سے دستبردار ہو گئی اور بتایا جاتا ہے کے اس ضمن میں اسکو پچانوے کروڑ ڈالر کے لگ بھگ رقم ادا کر دی جائے گی۔ نئے معاہدے کی رو سے ریکوڈک کے آدھے حصص بیرک گولڈ کو دے دیئے گے ہیں جبکہ بقایا آدھا حصہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی کمپنیوں اور پاکستانی کی وفاقی حکومت کی کمپنیوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اس منصوبے پر 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے 8,000 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کے خلاف تمام بین الاقوامی فیصلوں اور جُرمانوں کو ختم کردیا گیا۔
یہ بھی فیصلہ کیا گیا کے حکومت پاکستان اس معاہدہ کے اوپر تمام اسٹیک ہولڈرز کواعتماد میں لے گی اور اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رائے لی جائے گی تاکہ مستقبل میں دوبارہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا نہ ہو۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد اُمید ہے اس معاہدے کے اوپر تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور یہ پراجیکٹ بلوجستان کے عوام کی ترقی کا باعث بنے گا۔ وفاقی حکومت پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کے وہ اس معاہدے کے ضمن میں بلوچ سیاستدانوں کے جو تحطفات ہیں ان کو دور کرے اور بلوچستان کے عوام کو اس پراجیکٹ میں ہر لحاظ سے اولیت دے۔