LatestPakistan

راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ متنازعہ کیوں؟

دریائے راوی کا منصوبہ سب سے پہلے 2013 میں بنایا گیا جس میں راوی کے دوسری جانب ایک نئے اور جدید شہر کا قیام ہے۔ اس منصوبے میں دریائے راوی کے پانی کو صاف کر کے ایک جھیل بنانا شامل ہے۔ اس پراجیکٹ کی کئی حصے ہیں جن میں ماحول کو بہتر بنانا اور اس علاقہ کو سماجی و اقتصادی طور پر ترقی دینا شامل ہے۔ یہ پراجیکٹ 46 کلومیٹر پر ہوگا جس میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ اسکے رہائشی ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کے اس پراجیکٹ کو لندن میں دریائے تھیمز اورچین کے شہر شینزین کو مدنظر رکھ کر بنایا جائیگا۔ یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہو گا جو اسلام آباد سے کئی گنا بڑا ہوگا اور اس کی مرحلہ وار تکمیل تیس سال میں ممکن ہوگی۔ اس کا تخمینہ تقریباً 5 کھرب روپے بتایا جاتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے لیے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (RUDA) تشکیل دی گئی ہے۔

دریا راوی، ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ بھارت کے مادھو پور ہیڈ ورکس بنائے جانے کے بعد دریا میں پانی کی سطح سردیوں کے مہینوں میں نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ اور مون سون کے موسم کے علاوہ باقی موسموں میں دریا تقریباً خشک رہتا ہے۔ پانی کی سطح کم ہونے کے علاوہ دریائے راوی کو آلودگی کے مسائل کا سامنا بھی ہے۔ مختلف جگہوں پر کئے گئے ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ شہری اور صنعتی سیوریج کو بغیر صاف کیےدریا راوی میں پھینگ دیا جاتاہے جس سے پانی میں مختلف دھاتوں اور گندگی کی وجہ سے پانی انتہائی آلودہ ہو جاتا ہے۔ واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) کا کام اس گندے پانی کو ٹریٹ کر کے پانی میں پھینکنا ہوتا ہے- چونکہ اول تو سیورج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگے ہی نہیں ہوئے یا پھر شہر کا گندہ پانی براہ راست دریائے راوی میں پھینک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے راوی غلاضت اور کوڑے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ اس سے زیر زمین پانی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہے جو کہ لاہور شہر کے لیے پینے کے پانی کا واحد ذریعہ ہے۔

روڈا کا مقصد آبادی اور ٹریفک کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی، پانی کی کمی اور سیلاب جیسے بڑے مسائل کو حل کرنا ہے۔ اس منصوبہ میں کھیتوں کے ساتھ ساتھ گرین بیلٹ بنانا، جنگلی حیات کی پناہ گاہیں، تھیم پارکس، جنگلات اور باغات قائم کیے جائیں گے۔ اس میں رہائشی، تجارتی علاقے اسپورٹس سنٹر بھی بنائیں جائیں گے۔ یہاں مقامی اورعالمی منڈیوں کے لیے ٹیکنالوجی، آئی ٹی، میڈیا اور اسطرح کی دوسری صنعتوں کو اولیت دی جائے گی تاکہ جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جا سکے۔ اسکے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کو راغب کیا جائے گا۔ اس منصوبہ میں دنیا کے بڑی شُہرت کے حامل ہسپتالوں کو جگہہ فراہم کی جائیگی۔ جن میں کلینک، سرکاری ہسپتال، ریسرچ لیبز، میڈیکل کالج، نرسنگ انسٹی ٹیوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اسکے ساتھ اس منصوبے میں دریائے راوی کے ارد گرد واقع تاریخی مقامات جن میں جہانگیر کا مقبرہ، بارہ دری اور دیگر مقامات شامل ہیں۔

اِس منصوبہ کے خلاف شدید ردعمل بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان مخالفین میں پاکستان کے مایہ ناز ماہر تعمیرات اور ماحولیات کو بچانے والی تنظیمیں شامل ہیں۔ یہ افراد اور تنظیمیں الزام لگ رہی ہیں کے اِ س منصوبہ کی آڑ میں پراپرٹی مافیا راوی کے دوسرے جانب موجود کھیتوں اور باغات کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ اگر حکومت  واقعی ہی لاہور اور اسکے گردونواع کی آب و ہوا کو ٹھیک کرنا چاہتی ہے تو راوی کی دوسری جانب ہر قسم کے رہائشی علاقوں پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ اِس جگہ پہ صرف زرعی فارم، باغات،  جنگلات کے ساتھ ساتھ تفریحی مقامات ہونے چاہیے۔ اگر حکومت اِس علاقے میں کوئی کمرشل ایریا  رکھنا چاہتی ہے تو یہ چھوٹے سے علاقے پر محیط ہونا چاہیے۔ اس علاقے میں صرف ٹیکنالوجی اور سوفٹ وئیر کمپنیوں کو اجازت ہونی چاہیے۔

ملک میں پہلے ہی جگہ جگہ رہائشی سکیمیں بنا کر زرعی زمین کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں غذائی قلت کا مسئلہ بھی دن بدن گھمبیر ہو رہا ہے ۔ ا س لیے ہالینڈ جیسے ملک کو دیکھتے ہوئے راوی کے ملحقہ علاقوں سمیت جہاں بھی ممکن ہو جدید طرز  کے چھوٹے چھوٹے زرعی فارم، باغات اور ڈیری فارمز میں بدل دینا چاہیے اس سے نہ صرف اِ س علاقے کی آب و ہوا بہتر ہو گی بلکہ زرعی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔

اسکے علاوہ جسطرے پاکستان کے تمام وسائل پراپرٹی کے کاروبار میں ضائع کردیئے گئے ہیں اسکی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ایک اندازہ کے مطابق پاکستان کی پراپرٹی میں کھربوں روپے ضائع کر دئیے گئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک حکومتی وزیر نے پراپرٹی کے کاروبار کو پاکستان کے مسائل کی ماں قرار دیا ہے جو کہ قطعاً غلط نہیں ہے۔ پراپرٹی میں لگے کھربوں روپے اگر صنعت، زراعت اور توانائی کے شعبے میں لگے ہوتے تو پاکستان اس معاشی تباہ حالی کا شکار نہ ہوتا جسکا ہمیں آج سامنا ہے بلکہ نہ صرف اس سے ملکی وسائل میں اضافہ ہوتا بلکہ لاکھوں افراد کو روزگار بھی میسر ہوتا۔ حکومت اگر واقع ہی آب و ہوا اور آلودگی کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو اسکے لیے تمام توجہ موجودہ لاہور میں فضائی اور آبی آلودگی کو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے اور راوی کے دوسرے جانب سمینٹ کا جنگل بنانے کی بجائے سرسبز کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ حکومت کو غریب لوگوں سے زمینیں خریدنے کی بجائے ان علاقوں میں نسلوں سے موجود افراد کو جدید طریقوں سے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور شہر میں پانی اور ہوا کو صاف کرنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے۔