کیا امریکی بنک کے دیوالیہ ہونے سے دُنیا کا بنکنگ نظام خطرے میں ہے؟
سلیکون ویلی بنک کی ناکامی نے امریکہ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ماہر ین اِس بنک کی ناکامی کو 2008 کی کساد بازاری سے تشبیہ دے رہے ہیں جب امریکہ کے دو بڑے مالیتی اداروں کے دیوالیہ ہونے کے بعد بینک اور سٹاک مارکیٹ کی بڑی کمپنیاں شدید مالی بحران کا شکار ہو گئی تھیں۔ سلیکون ویلی اگرچہ امریکی مالیاتی نظام میں کوئی بڑا بینک نہیں ہے۔ مگر اس کے بُحران سے لوگوں کو بڑے بڑے بنکوں کی مالی حالت پر شک ہو گیا ہے۔ بنکنگ کا شعبہ ویسے ہی کرونا وائرس کے بعد مزید بُحران کا شکار ہو گیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے دو بڑے بنکوں کے بارے میں بھی خاصے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے کئی بنکوں کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں ہے سلیکون ویلی کا مسئلہ شرح سود میں اضافہ کے بعد شروع ہوا۔
چونکہ سلیکون ویلی نے اپنی زیادہ تر سرمایہ کاری امریکہ کے سرکاری بانڈز میں کی ہوئی تھی۔ اس لئے جب شرح سود ان بانڈز کے مقابلے میں بڑھ گئی تو بڑی بڑی کمپنیوں نے بنک سے پیسے نکلوانے شروع کر دیے ۔ بنک نے یہ پیسے لوٹانے کے لیے بانڈز کو نقصان پر فروخت کرنا شروع کر دیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ تمام بانڈز بیچنے کے بعد وہ ڈپازٹرز کو پیسے دینے کے قائل نہیں رہا ۔ جس سے مارکیٹ میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ چونکہ اس میں ٹیک کمپنیوں کے بہت بڑے بڑے اکاؤنٹ تھے اس لئے انشورنس کے قانون کے مطابق ان کو 290,000 ڈالر تک ہی ملیں گے جو کہ بڑی کمپنیوں کی اصل رقم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ امریکہ میں خاصے عرصے سے بحث چل رہی ہے کہ کب کساد بازاری آئے گی اور کتنی خطرناک ہوگی۔ سلیکون ویلی بنک کے دیوالیہ ہونے کے بعد اب معاشی بُحران کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔