پیداواری سیکٹر میں کمی کا رُجحان
مارچ کے مہینے میں پاکستان کی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں پچیس فیصد کمی ہوئی ہے۔ یہ کمی پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ پاکستان کے لیے معاشی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ صنعتوں کو بڑے پیمانے پر لگانا ہے۔ مگر بجلی کی قیمتوں میں انتہائی اضافہ کے باعث صنعتی شعبہ کو خاصہ نقصان پہنچایا ہے۔ اِسکے علاوہ حکومت کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ کو تاخیر سے جاری کرنے کے باعث مشنری اور خام مال کی درآمد میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے ملک میں صنعتی شعبہ بہت بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ ملک میں چیزوں کی ڈیمانڈ میں خاصی کمی کر دی ہے ۔ اگر حکومت نے ملک کو اس بُحران کو نکالنا ہے تو اُسے صنعتی بحالی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا ۔ ٹیکسٹائل کی صنعت میں بھی مُشکلات کا سامنا ہے۔
پیٹرولیم کی پراڈکٹ میں FY23 میں اب تک 17.96 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسکی وجہ روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہے۔ اگر چہ اِس سے امپورٹ میں خاصی کمی آئی ہے لیکن معاشی طور پر یہ اچھا نہیں ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی حالات سُست روی کا شکار ہیں۔
بنکوں کے قرضوں میں بھی شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ قرضوں میں 90 فیصد کمی ہوئی ہے ۔ ملک ویسے ہی معاشی بُحران کا شکار ہے۔ اِسکے ساتھ ساتھ سود کی شرح 22 فیصد پر چلے جانا بھی انہائی تشویش ناک ہے جس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں جمود کا شکارہو گئی ہیں۔