گاڑیوں کی صنعت کو شدید بُحران کا سامنا
پاکستان کی آٹو پارٹس کی انڈسٹری بہت مخدوش حال میں ہے۔ پاکستان میں پارٹس بنتے ہیں مگر ان کی کوالٹی کوبہتر نہیں بنایا جا رہا جس کی وجہ سے پاکستان میں گاڑیوں کی صنعت شدید بُحران کا شکار ہے۔ انڈیا میں جو گاڑیاں بنتی ہیں اس کے کئی پارٹس انڈیا میں ہی بنتے ہیں اسی وجہ سے انڈین گاڑیاں پاکستان روپے میں بہت سستی ہیں۔ جب کہ پاکستان میں یہ گاڑیاں عوام کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہیں۔ اگر چہ پاکستان میں یہ سپئیر پارٹس آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں اور پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ان کی کوالٹی بہتر بنائی جا ئے۔ اگر پاکستان گاڑیوں کے ستر سے اسی فیصد پارٹس بنانا شروع کر دیتا ہے تو پاکستان سالانہ اربوں ڈالر بچا سکتا ہے۔ اس طرح مختلف سائز کی وین اور بس وغیرہ بھی۔ مگر پاکستان میں جو پارٹس بنائے جا رہے ہیں وہ انتہائی گھٹیا معیار کے ہیں مگر چونکہ سے باہر سے سمگلنگ کے ذریعہ چیزیں منگوائی جارہی ہیں اسلیے مقامی صنعت مہنگی پیداواری لاگت کی وجہ سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں آٹو مار کیٹ میں کرپشن اور بے ایمانی بہت زیادہ ہے۔ دکھایا کچھ جاتا ہے اور دیا کچھ اور جاتا ہے۔ قیمتوں میں بھی ہیر پھیر ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ بہت مشکل ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں کم ہو ں جب تک ان گاڑیوں کے پارٹس پاکستان میں نہیں بنتے گاڑی کی قیمتیں نیچے آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ یہ سنہرا موقع ہے کہ اس امر کو لازم کیا جائے کہ گاڑیوں کے پارٹس پاکستان میں ہی بنیں۔ اب ویسے بھی پاکستان میں وہ ہی گاڑیا ں بِک سکیں گی جس کی قیمت مناسب ہو گی اور اس کے لیے گاڑیوں کی قیمت کو نیچے لانا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں کے معیار پر بھی خاصی بحث رہی ہے پاکستان میں جو سستی گاڑیاں بن رہی ہیں اُن کا معیار بھی اتنا اچھا نہیں ہے بلکہ انجن کی ٹیکنالوجی بھی خاصی پُرانی ہے۔ اب کمپنیوں نے نئی ٹیکنالوجی کے حامل انجن متعارف کرانے شروع کئے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ آٹو انڈسٹری کے مسائل حل کرے اور بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے لازم ہو کے وہ مقامی طور پر پارٹس بنائیں۔