ویتنام کی ترقی میں ہمارے لیے ایک سبق
آج ایک خبر نظر سے گزری کے ویت نام کی کار کمپنی وِن فاسٹ نے امریکہ سٹاک مارکیٹ میں لسٹ کی ہے جس کے بعد یہ کمپنی خبروں کے مطابق فورڈ اور GM سے بڑی کمپنی بن گئی. یہ خبر بہت حیران کن تھی کہ ویت نام جیسے چھوٹے ملک کی کمپنی امریکہ کی دو بڑی کمپنیوں سے آگے نکل گئی۔
سرسری نگاہ جب ویت نام کی معیشت پر ڈالی تو مزید حیرانی ہوئی کے دس کروڑ سے کم آبادی والے ملک کی مجموعی قومی پیداوار 450 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اسکی فی کس آمدنی 4,500 ڈالر کے قریب ہے. اسکے مقابلے میں پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ جی ڈی پی 350 ارب ڈالر اورفی کس آمدنی 1200ڈالر سے کم ہے ۔ویت نام کی مجموعی برآمدات 281 ارب ڈالرجب کے درآمدات 261 ارب ڈالر ہے. اور اسکے غیرملکی کرنسی کے ذخائر 185 ارب ڈالر ہیں اسکے برعکس ہمارے غیر ملکی کرنسی کی بدحالی کے بارے میں کہنے کی کچھ ضرورت نہیں جسطرح غیر ملکی اداروں اور ممالک کے سامنے ناک رگڑ کر ایک ایک ارب ڈالر اکھٹا کیا جارہا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے ہماری مجموعی برآمدات 20 ارب ڈالر کے قریب ہی رہتی ہیں جبکہ درآمدات22-2021 میں 67 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی تھیں۔
کئی لوگوں کےخیال میں اس میں شاید کوئی حیرانی کی بات نہ ہوکیونکہ دنیا میں اور بھی ممالک ہے جنکی معیشت بہت بڑی ہے.مگر ویت نام کے بارے میں حیران کن بات یہ ہے کہ یہاں پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے تباہ کن جنگ لڑی گئی جو 1955 سے 1975 تک جاری رہی جس میں بیس سے تیس لاکھ افراد لقمہ اجل ہوگئے. ویت نام میں اس جنگ کے اختتام پر ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی. کمیونسٹ پارٹی نےحکومت سنبھالنے کے دس سال بعد ہی 1986 میں فری مارکیٹ کی معیشت کو ترجیح دی اور جسطرح غیر ملکی کمپنیوں کوملک میں سرمایہ کاری کی مکمل اجازت دے دی. ویت نام نے امریکہ سے جنگ کے باوجود ماضی کو بھول کر ملکی ترقی کیلئےامریکہ سے بھی تجارتی معاہدے کئے. ویت نام کی ترقی کا راز کوئی بہت معمہ نہیں ہے
اگر تیس چالیس سال کے اندر ویت نام ایک خوشحال ملک میں تبدیل ہورہا ہے اسکی بڑی وجہ مخلص اور ایماندار لیڈر شپ ہے.اسکے علاوہ سیاسی استحکام بھی ویت نام کی ترقی کا باعث ہے.پچھلے چالیس سال میں پاکستان میں کوئی درجن بھر حکومتیں بدلی ہوگی اور اس دوران مار دھاڑ دیکھنے میں آئی جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ہوگی. پاکستان میں لاقانونیت، دہشتگردی اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم رہا جس کی مثال نہیں ملتی اسکے برعکس ویت نام ایک پارٹی کے نظام کے تحت ترقی کرتا رہا اور انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ صنعتی نظام کی صورت میں ہی معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں اسلئیے انہوں نے تمام تر توجہ اسکی جانب مرکوز کر دی۔