پاکستان میں بجلی کا بحُران
پاکستان میں بجلی کے بُحران نے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے کھڑا کر دیا ہے۔ بجلی کا یہ بُحران پاکستان کے غیر ملکی اور ملکی ذخائر پر بے پناہ خسارے کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان صنعتی شعبہ کو جس قیمت پربجلی مل رہی ہے۔ اِس کے باعث پاکستانی مصنوعات بین الاقوامی منڈی میں چین، ہندوستان بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کی اشیاء سے مقابلہ نہیں کر پارہیں۔ ان ممالک میں بجلی پاکستان کے مقابلہ میں دوس تین گنا کم ہیں۔ عام شخص بھی بجلی کے بل ادا کرنے کی صلاھیت کھو چکا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل اب عوام کی آدھے سے زیادہ آمدنی لے جاتے ہیں۔ اس وقت ملک میں مزید اضطراب پایا جاتا ہے۔ اگر چہ اس میں فوری طور پر بہتری کے آثار نہیں ہیں ۔ لیکن حکومت اگر سنجیدگی سے فیصلہ کر لے تو ایک سے دو سال کے اندر اِس مسئلہ پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں بجلی کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان میں 45000 کے لگ بھگ بجلی بنانے کی صلاحیت ہے۔ جب کہ پاکستان میں اس کی کھپت 39,000 میگا واٹ کے لگ بھگ جاتی ہے۔ پاکستان میں مہنگی بجلی کی وجوہات تیل، گیس اور کوئلہ سے چلنے والے وہ پلانٹ ہیں جن کو چلانے کے لیے یہ چیزیں درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ پاکستان کی تمام برآمدات سے ہونے والی آمدنی تیل ،گیس اور کوئلہ کی درآمد کے برابر ہے۔
بین الاقوامی منڈی میں تیل گیس اور کوئلہ کی قیمتوں میں پچھلے چند سالوں میں بہت تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ جس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک تو کیا مغرب کے ترقی یافتہ ممالک بھی پریشان ہیں۔ پاکستان میں مقامی ذرائع سے بجلی بنانے کے وافر ذکائر موجود ہیں ۔ مختلف رپورٹوں اور سروے کے مطابق تمام ماہرین متفق ہیں کہ پاکستان پانی سے ستر ہزار میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے۔ تھرکول سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے۔ پاکستان ساحلوں پر ہوا سے ببھی اتنی ہی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شمسی بجلی پیدا کرنے کی توکوئی حد ہی نہیں۔ پاکستان نیوکلئیر سے بھی بجلی پیدا کر رہا ہے۔ اس کوبھی خاطر خواہ حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب پاکستان لاکھوں میگا واٹ سستی اور مقامی ذرائع سے بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ ایسے میں تیل، گیس اور کوئلہ کے مہنے پراجیٹ لگانا غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا جس کی سزا آج ملک کو قوم بھگت رہے ہیں۔ اس وقت ملک میں پیدا کی جانے والی ساٹھ فیصد بجلی درآمد شدہ تیل ، گیس اور کوئلہ سے بنائی جا رہی ہے۔ خوش قسمتی سے پچھلے چند سالوں میں پانی ، شمسی اور تھر کے کوئلہ سے بجلی بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ جس سے بجلی کی پیداوار میں سستی بجلی کا حصہ بڑھتا جائے گا۔
بجلی کے بُحران کی وجہ سے پرائیوٹ پاور پلانٹ سے کیے جانے والے معاہدے ہیں جس نے ملک کو ان کمپنیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا دیاہے۔ پاکستان میں ان کمپنیوں کے ساتھ دھڑا دھڑ معاہدے تو کئے گئے مگر آگے بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر نہیں بنایا گیا۔ نتیجہ کے طور پر ان سے پوری مقدار میں بجلی نہیں خریدی جا رہی۔ لیکن معاہدہ کی رو سے اگر حکومت ان سے بجلی نہیں بھی خریدتی تو جتنی بجلی بنانے کی صلاحیت ایک کارخانے کی ہے اُس کو ا،س کا پچاس سے ستر فیصد ضرور ادا کرے گی۔ آئی ایم ایف کی طرف سے دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ یہ پیسہ بھی عوام سے بلوں کی مد میں لیا جائے۔ یہ ہی آئی پی پی پاکستان کے لیے سر درد بنے ہوئے ہیں اور ہماری معیشت میں بہتری کی بجائے تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔
ان پاور پلانٹ کا حل یہ ہے کہ ان کی بجلی کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے ۔ کچھ پاور پلانٹ جو کہ استعمال میں لانے میں مسائل ہیں حکومت خرید کر بند کردے ۔ تیسرا پاکستان کی صنعتی اور تجارتی تنظیموں کو چاہیے کہ ان پاور پلانٹ کاکنٹرول لے کر ان کوخود چلائے ۔ اِ س طرح صنعتی شعبہ کو موجودہ قیمت سے کم پر بجلی دستیاب ہو گی اور حکومت کے لیے بھی آسانی ہو جائے گی۔
تیسرا بڑا مسئلہ بجلی کی چوری اور مختلف اداروں کی نااہلی ہے۔ حکومت بجلی کی ترسیل کا کام صوبوں کے سُپرد کر رہی ہے جو کہ ایک اچھا قدم ہے۔ اس وقت بجلی کی ترسیل میں چوری اور تکنیکی وجہ سے نقصان سترہ فیصد تک ہے جو بہت زیادہ ہے اس کو کم کرنے کی فوری طور پر ضرورت ہے ۔
کاروبار کو چلانا حکومت کا کام نہیں ماضی کی تمام حکومتوں نے نجی شعبہ میں چلنے والے تمام اداروں کا بیڑہ غرق کیا ۔چاہے وہ پی آئی اے ہو یا واپڈہ ۔ سٹیل مل ہو یا کوئی ادارہ کسی بھی شعبہ کی حالات صحیح نہیں چھوڑے ۔ ہمارے پاس مثال موجود ہے کہ جب بنکنگ اور ٹیلی فون کے شعبہ کو پرائیوٹ سیکٹر میں دیا گیا حالات میں بہتری آئی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بجلی کے شعبہ میں بھی جلد اور صحیح فیصلے کئے جائیں۔