پاکستان میں گندگی اور ملاوٹ کے باعث بیماریوں میں اضافہ
جب موجودہ حکومت ملک کو موجود کئی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں یا ان کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان میں سب سے زیادہ مسئلہ گندگی اور ملاوٹ ہے جو کہ ہمارے صحت کے مراکز کے لیے بہت مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گردوں ، جگر اور پیٹ کی بیماریوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہیپا ٹائٹس کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے اور بعض علاقوں میں تو یہ خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے اور تیس فیصد آبادی اس کا شکار ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال بہت تشویشناک ہے۔ اس کی بنیادی وجہ گندگی ہے۔ ہمارے ہاں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ صاف پانی ایک کثیر آبادی کی پہنچ سے دور ہے۔ کھانے پینے کے مراکز بھی غلاظت کا ڈھیر ہیں اور اِس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ جس جگہ کھانے بنائے جاتے ہیں بہت غلیظ ہیں۔ انسپکشن ٹیمیں ان لوگوں سے صرف بھتی لینے جاتی ہیں۔ جو ورکرز ان جگہوں پر کام کرتے ہیں وہ بھی صفائی کے اصولوں سے نابلد ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر افراد بھی ہیپا ٹائٹس کا مرض پایا جاتا ہے۔ کھانے پینے کے اجزا بھی ملاوٹ اور گندگی سے بھرے ہوئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دودھ میں آدھی درجن سے زائد ایسے اجزاء ملائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے مضر ہیں۔ گوشت کے نام پر مینڈک، گدھے اور معلوم نہیں کیا کیا بیچا جا رہا ہے۔ تیل کی بعض اقسام انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔ مگر پاکستان میں بک رہی ہیں۔ کئی جگہ و گندہ موبائل آئل پراسیس کر کے بیچا جا رہا ہے۔ مصالحہ جات بھی ملاوٹ سے پاک ملنا مُشکل ہے بازار میں ملنے والے نان میں انتہائی غیر ضروری آٹا استعمال کیا جاتا ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان چیزوں کو بھی دیکھا جائے۔ اِس ضمن میں بھاری جرمانے اور سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ہسپتالوں اور دوائیاں خریدنے والی کمپنیوں کی بجائے عوام کو صاف ستھری اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے عوام کو آگہی دینی چاہیے۔