پاکستان میں ہر سال پانی کی کمی
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ اگر چہ اِ س کے قدرتی عوامل بھی ہیں۔ مگر اِس میں ہماری مختلف حکومتوں کی نااہلی اور چشم پوشی بھی ہے۔ 2017 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان ہرسال بائیس بلین ڈالر کا پانی ضائع کر دیتا ہے۔ یہ و ہ پانی ہے جو بغیر استعمال کے سمندر میں جا گرتا ہے۔ بھارت نے اسی بات کو جواز بنا کر ہمارے پانیوں پردرجن سے زائد ڈیم بنا لئیے۔ دوسری جانب افغانستان نے بھی دریائے کابل پر ڈیم کی تعمیر شروع کر دی ہے اور وہاں سے بھی پانی کی کمی واقع ہو جائیگی۔ مگر پچھلے پچیس سالوں میں کسی بھی حکومت کے کان پر جوں نہ رینگی کے وہ اس مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر اُٹھائیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں جب کوئی ڈیم بننے لگتا ہے تو یہ ہی قوتیں شور مچانا شروع کر دیتی ہیں ۔ اِس صورت حال کے باعث پچھلے چالیس سال میں ڈیم بنانے کے سلسلے کو مکمل طور پر مؤخر کر دیا گیا۔ کالا باغ ڈیم کو جان بوجھ کر متنازعہ بنا کر سرد خانے میں ڈال دیاگیا ہے۔ یہ ایک ایسا ڈیم ہے جو بلوچستان اور سندھ کے لئیے بھی بہت اہم ہو سکتاہے۔ داسو ڈیم کی تعمیر میں بھی بہت تاخیر کی گئی۔ اب ملک دشمن قوتیں مسلسل وہاں کام کرنے والے چین کے باشندوں پر حملے کر رہی ہیں جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی کا مسئلہ پاکستان میں سیاسی ہے۔ اور کچھ بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کو پسماندہ رکھنا چاہتی ہیں۔ اِس لئے ایسے ہر منصوبے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ذاتی مفاد کی خاطر ملکی مفاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ضرور ت اِس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے لئیے بین الاقوامی سطح پر آواز اُٹھائے۔ اور ملک کے اندر تکنیکی بنیادوں پرپانی کے بہترین استعمال کے لیے کوشش کرے۔ اِس کے لیے پاکستان کو جلد از جلد تمام ڈیموں پر کام شرو ع کر دینا چاہیے۔ ورنہ زرعی انقلاب کا خواب خواب ہی رہ جائیگاْ۔
ا