پاکستان میں ترقی کی شرح کم ترین سطح پر
ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق اس سال بھی پاکستان کی ترقی کی شرح 2.4 فیصد رہی جو کہ پاکستان کے لیئے بہت کم ہے۔ بلکہ کئی معاشی مبصر اِس کو اس سے بھی کم بتا رہے ہیں۔ مہنگائی کی شرح بھی 17 فیصد سے 26 فیصد کے درمیاں بتائی جارہی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے جس سے ایک عام انسان سے لے کر صنعتی شعبہ اور حتیٰ کہ حکومت بھی مشکلا ت کا شکار ہے۔ پاکستان میں بجلی دنیا میں سب سے مہنگی ہے۔ اور بجلی کے موجودہ ریٹ پر پیداواری شعبہ کبھی بھی بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں سود کی شرح بھی دنیا میں بہت زیادہ ہے ۔ پاکستان کی حکومت پچھلے تین سالوں سے تمام توجہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے میں لگی ہوئی ہے۔ درآمدی اشیاء کی پابندی سے مشینری اور خام مال کی درآمد متاثر ہو رہی ہے جو کہ صنعتی شعبہ کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہیں ہیں۔ اِس سال ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ مہنگی بجلی اور گیس ہے۔ اِس کے علاوہ درآمدات میں مشکلات کے ساتھ ساتھ قرضوں پر 22 فیصد سود نے اِس شعبہ کو بھی تنزلی پر ڈال دیا ہے۔ اِس کے علاوہ اگرچہ ملک میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے مگر صنعتی شعبہ میں ہنرمند افراد کی کمی ہے اور ا س کی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جو کہ انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی بیس پچیس سالوں کی غلطیوں نے نے پاکستان کو ایک ایسے معاشی بھنور میں پھنسا دیا ہے جس سے نکلنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں پاکستان کو مزید مشکلات میں دھکیل رہیں ہیں۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے نہ تو مہنگائی میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع ہو گی اور نہ ہی صنعتی شعبہ میں کوئی نمایاں اضافہ ہو گا جس سے پاکستان اس معاشی گرداب سے نکل سکے۔ اگرچہ پاکستانی روپیہ سیاسی عدم استحکام اور دیفالٹ کیے خطرے کے باعث بُری طرح متاثر ہوا ہے مگر آئی ایم ایف اب بھی روپے کی قدر کو مسلسل کم کرنے پر زور دے رہا ہے۔ گو کہ بعض بین الاقوامی ادارے اِس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی قدر 220 سے 250 روپے فی ڈالر کے درمیان ہونی چاہیئے۔ مگر ایس خبریں گردش کررہی ہیں کے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اسے سات فیصد سالانہ کے حساب سے اس کی قدر میں کمی کی جائے گی۔ یہ صورتحال قطعاً پاکستانی معاشیت میں بہتری نہیں لائے گی۔ ایک کمزور کرنسی کبھی بھی ملکی معیشت کے لیئے بہتر نہیں ہو سکتی۔ اور اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔
پاکستان کو شرح سود میں بھی نمایاں تبدیلی کرنی پڑے گی۔ اگر چہ پاکستان نے بہت حد تک تجارتی خسارے کو کم کیا ہے جو کہ ایک اچھا قدم ہے مگر پاکستان نے قرضوں کی مد میں ہر سال 25 ارب ڈالر لے لگ بھگ ادائیگی کرنی ہے جو پاکستانی زرمبادلہ پر دباؤ بڑھا رہے ہیں ۔ موجودہ حالات میں حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں مگر حکومت کو معاشی ترقی کے لیئے کچھ ایسے اقدام کرنے ہوں گے جس سے صنعتی شعبہ کو تنزلی سے نکال کر ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔
حکومت کو بجلی کے شعبہ پربھی نظر ثانی کرنی ہو گی۔ جب تک مہنگے بجلی گھروں سے جان نہیں چھڑائی جاتی پاکستان کی حکومت، عوام اور صنعت کار کپیسٹی چارجز کے چکر سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ اگر چہ پاکستان میں بجلی خطہ کے دوسرے ممالک سے تین گنا مہنگی ہے مگر جس طرح بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جلد ہی یہ 100 روپے یونٹ تک جانے کا خطرہ ہے جو ملکی معیشت کو مکمل تباہ کر دے گی۔ ہمارے ہاں 4500 میگا واٹ بجلی بنانے کی گنجائش ہے جب کہ کھپت صرف 15 سے بیس ہزار میگا واٹ ہے اور اِس میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ ضرور ت اِس امر کی ہے کہ مہنگے بجلی گھروں کو بند کیا جائے یا تھرکول پر شفٹ کیا جائے۔ مگر اِس جانب حکومت کی پالیسی انتہائی سست ہے۔ اگر حکومت اِس شعبہ کو جنگی بنیادوں پر سیدھا کر لے تو معیشت میں بہتری آ جائے گی۔ اب حکومت تیل اور گیس کے بجلی گھروں کو نجی شعبہ کے حوالے کر نے جا رہی ہے جو کپیسیٹی چارجز میں مزید اضافہ کریں گے۔ اگر روپیہ 300 ، بجلی کا یونٹ 100 روپے ہو گیا تو حالات کیسے ہوں گے یہ انتہائی پریشان کُن صورتحال ہے۔