تیس سال کے بعد گولڈ میڈل
ارشد ندیم کا نیزہ نے اولمپک ریکارڈ توڑا تو پاکستانیون کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ایک ایسا کھیل جسکو کبھی بھی عوام میں کوئی خاص پیزارائی نہ تھی ایک دم سب سے اہم کھیل بن گیا۔ پاکستان نے چالیس سال بعد اولمپک میڈل جیت لیا۔ اسمیں کوئی شک نہیں کے پچھلے بیس سالوں میں جس طرح ایک ایک کر کے کھیلوں کو تباہ کیا گیا ہے اسکی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ارشد ندیم کے بارے میں بھی قسم قسم کی کہانیاں گھڑی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کے ارشد ندیم کو سکول سے ہی نیزہ بازی کا موقع مل گیا تھا جب اِس کے ایک جاننے والے نے نہ صرف اِس کھیل میں ڈالا بلکہ نیزہ بھی خرید کردیا۔ اُس وقت ارشد ندیم کی عمر سولہ برس تھی۔ اِس کے کچھ عرصے کے بعد وہ واپڈا کی ٹیم میں شامل ہوگیا اور بعد میں واپڈا میں ملازمت مل گئی۔ ارشد ندیم کو پچھلے چھ سات سالوں سے بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کا موقع بھی مل رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان سپورٹس بورڈ کی طرف سے علاج کے لئے لندن بھی گیا اور اس دوران ٹریننگ کے لئیے مالدیپ، ترکی اور جنوبی افریقہ بھی بھیجا گیا ۔ بقول ارشد ندیم کے اِس سارے عرصے میں اُس کے کوچ اور ڈاکٹر نے بھرپور ساتھ دیا۔ اِس سے یہ بات تو ثابت ہو تی ہے کہ اگر چہ یہ سب ارشد ندیم کی محنت کے سبب ہے لیکن اسے میں خاصی حد تک واپڈا اور پنجاب سپورٹس کا بھی ہاتھ رہا ہے۔
بہرحال اگر پچھلے تیس سال میں پاکستان کی کھیلوں میں کارکردگی دیکھی جائے تو یہ انتہائی مایوس کُن رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کھیلوں کی ایسوسی ایشن میں سیاسی تقرریاں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اولمپک کمیٹی کے صدر بیس سال تک اسے عہدے سے چمٹے رہے اور اِس دوران فنڈز کو کھلاڑیوں پر خرچ کرنے کی بجائے تنخواؤں اور غیر ملکی دوروں پر خرچ کیا جاتا جب کہ زیادہ تر کھلاڑی مالی مشکلات کی وجہ سے کچھ عرصے کے بعد کھیلوں کو چھوڑ کر ذریعہ معاش کمانے کی طرف متوجہ ہو جاتے رہے۔ 2020ء میں ڈپارٹمنٹ میں کرکٹ کو بھی ختم کر دیا گیا۔ جاوید میانداد اور کئی پرانے کھلاڑیوں نے بہت شور مچایا کے اس سے سینکڑوں کھلاڑیوں کا ذریعہ معاش ختم ہو جائیگا مگر اُس وقت کی حکومت نے کوئی دھیان نہ دیا۔ اب اگر حکومت واقعی ہی کھیلوں کے فروغ کے لئیے سنجیدہ ہے تو ڈیپارٹمنٹ کی ٹیموں کو اجازت دے اور اِس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کے ذریعہ معاش کے لئیے مزید فنڈز جاری کرے تاکہ یہ کھلاڑی اپنے خاندان کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنی خوراک ٹریننگ اور اپنے کھیل کی اشیاء بھی خرید سکیں۔
اسمیں سب سے اہم ہے کہ کم از کم ہر ڈسٹرکٹ میں بین الاقوامی سطح کی ٹریننگ کی سہولت ہونی چاہیئے۔ تاکہ کھلاڑی اپنے گھر سے قریب رہ کر کم ازکم ابتدائی عرصہ میں ٹریننگ حاصل کر سکیں۔ ان کی کھلاڑیوں کا وظیفہ بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم ہندوستان سے موازنہ کریں تو پچھلے تیس سالوں کے دوران ہندوستان نے کھیلوں پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا ہے۔ اِسی وجہ سے کرکٹ ، ہاکی اور دوسرے کھیلوں میں ہندوستان نے بہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں جب کہ پاکستان میں کھیل مسلسل تنزلی کا شکار رہے۔ اسکوائش اور ہاکی تو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں جب کہ کرکٹ میں بھی اقرباء پروری کی وجہ سے صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ اب پی سی پی کے نئے چئیرمین نے چند اہم تبدیلیاں کی ہیں اُمید ہے اِس سے کرکٹ میں بہتری آئے گی۔ اِس کے ساتھ ساتھ باقی کھیلوں میں بھی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کرکٹ ،ہاکی ، سکوائش کے ساتھ ساتھ فٹبال اور اتھلیٹک کے میدان میں بھی مزید کامیابی حاصل کرسکے۔