پاکستان اور ایک نیا ڈاکٹرائن
مستحکم اور طویل مدتی سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کا قیام کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جن ممالک نے یہ حکمت عملی اپنائی، وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے، جیسے سنگاپور اور ملائیشیا، جو ایک وقت میں ترقی پذیر ممالک تھے لیکن مستحکم حکومتوں اور واضح اقتصادی پالیسیوں کے باعث آج ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہیں۔ ایسی پالیسیوں سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے، معیشت مستحکم رہتی ہے، اور عوام کو روزگار اور بہتر زندگی کی ضمانت ملتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ بار بار کی سیاسی تبدیلیوں اور غیر یقینی حالات کو ختم کر کے ایسی پالیسیاں بنائیں جو دہائیوں تک جاری رہیں اور ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کریں۔
پاکستان کی تاریخ میں 1960 کے بعد سے اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی لیڈرز اور پارٹیز کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا، جن میں پی پی پی، پی ایم ایل اور پی ٹی آئی نمایاں ہیں۔ بھٹو کو ایوب خان کی کابینہ میں لایا گیا، نواز شریف کو ضیاء الحق کی سرپرستی حاصل رہی، اور عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ملی۔ تاہم، وقت کے ساتھ یہ رہنما اپنے تخلیق کاروں سے اختلافات کا شکار ہوئے اور ان کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ ان ٹکراؤ نے نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کو چیلنج کیا بلکہ ملک کو سیاسی بحرانوں اور عدم استحکام کا شکار کر دیا، جو آج بھی پاکستان کی سیاست کو گہرے اثرات کے ساتھ متاثر کر رہا ہے۔
جہاں پاکستان کے سیاسی مسائل نے معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، وہاں بے جا عدالتی مداخلت اور غیر مستحکم فیصلوں سے بھی ملک کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا۔ ریکوڈک کیس میں عدالت کے فیصلے نے پاکستان کو اربوں ڈالر کے جرمانے کا سامنا کرایا، جبکہ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کے عمل میں رکاوٹ نے ایک منافع بخش ادارے کو تباہ کر دیا اور پاکستان انھی تک اس بند ادارے کا خرچہ اُٹھا رہا ہے۔ اسی طرح، عدلیہ کی غیر ضروری مداخلت اور فوجی آمریت کے تحت مختلف نظریات، جیسے "نظریہ ضرورت”، نے نہ صرف جمہوری نظام کو کمزور کیا بلکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی ختم کیا۔ ان مسائل نے معیشت کو غیر یقینی حالات میں ڈال کر ترقی کے مواقع محدود کر دیے ہیں، اور پاکستان کی معاشی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور ملک کو سیاسی اور اقتصادی استحکام کی طرف لے جائیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں افغانستان کے معاملات میں مداخلت، افغان مہاجرین کی میزبانی، ایران اور بھارت کے ساتھ مسائل نے ملک کو شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ افغانستان میں مداخلت نے نہ صرف ملک کو طویل مدتی تنازعات میں الجھایا بلکہ دہشت گردی اور شدت پسندی کو فروغ دیا۔ افغان مہاجرین کا بوجھ معیشت اور سماجی ڈھانچے پر پڑا، جبکہ ایران اور بھارت کے ساتھ مسائل نے مُشکلات میں اضافہ کر دیا۔ پڑوسی ممالک کی مدد سے پاکستان میں مختلف گروہوں کی تشکیل نے پاکستان کے اندرونی حالات کو مزید خراب کیا، جس کے نتیجے میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور غیر مستحکم معیشت جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ان غلطیوں سے سبق سیکھے، غیر مداخلتی پالیسی اپنائے، اور شدت پسند گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے۔ بغیر استحکام اور امن کے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جہاں تمام مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات کو مقدم رکھتے ہیں اور اسلامی اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ بدقسمتی سے، گزشتہ چالیس سالوں میں مختلف گروہ وجود میں آئے ہیں جو غیر ملکی فنڈنگ یا حکمرانوں کی پشت پناہی کے ذریعے اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے بنائے گئے۔ یہ گروہ انتہا پسند نظریات کے حامل ہیں اور اکثر خفیہ مقاصد کے لیے پُرتشدد احتجاج کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ صرف وہی حق پر ہیں اور باقی قوم گمراہ یا کافر ہے۔ اس قسم کی سوچ اور ان گروہوں کی حمایت معاشرے کے لیے سنگین خطرہ بن گئی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مذہبی تعلیم کو معتدل اور جامع بنایا جائے اور تمام فرقوں کو یکساں حقوق دیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ شدت پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے اور عوام میں اتحاد، رواداری، اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔
پاکستان میں نسلی تنازعات ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں، جو ملکی ترقی اور اتحاد کو متاثر کر رہے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کو ان کے مسائل خود حل کرنے کے لیے بااختیار بنایا جائے اور انہیں ترقیاتی منصوبوں میں شراکت دار بنایا جائے۔ ہر صوبے کو عوامی و نجی شراکت داری (PPP) کے ذریعے ایسی پالیسیاں بنانی چاہییں جو نہ صرف مقامی ترقی کے لیے موزوں ہوں بلکہ ملکی ترقی میں بھی معاون ہوں۔ حکومت کو نسلی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے عوام میں شعور اجاگر کرنا چاہیے اور تعلیم، روزگار، اور صحت کے منصوبوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ مقامی سطح پر مسائل کے حل کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو مختلف برادریوں کے درمیان تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اس کے علاوہ، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ترقیاتی منصوبوں کی شفافیت یقینی بنائی جائے تاکہ تمام علاقوں کو یکساں مواقع مل سکیں۔ یہ اقدامات ملک میں نسلی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے ضروری ہیں۔
پاکستان کو ایسی معاشی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جہاں معاشی ترقی پورے ملک میں یکساں طور پر کی جائے، بجائے اس کے کہ تمام اقتصادی سرگرمیاں صرف کراچی اور لاہور تک محدود رہیں۔ اس وقت پاکستان کے دور دراز علاقے، جیسے بلوچستان، قبائلی اضلاع، گلگت بلتستان اور اندرونِ سندھ، بنیادی سہولیات جیسے تعلیم، صحت اور سڑکوں سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ شدید غربت کا شکار ہیں۔ ان علاقوں کی ترقی کے لیے حکومت کو خصوصی فنڈز مختص کرنے چاہییں، مقامی صنعتوں کو فروغ دینا چاہیے، اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر توجہ دینی چاہیے۔ ہر علاقے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی اقتصادی زونز قائم کیے جائیں، مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں، اور تعلیمی و صحت کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ یہ اقدامات نہ صرف ان علاقوں کو ترقی دیں گے بلکہ ملک میں یکجہتی اور استحکام کو بھی فروغ دیں گے۔
پاکستان کو اب ایک نئے نظریے کی ضرورت ہے جو نئی سیاسی جماعتیں بنانے کے بجائے ایک مضبوط اور مؤثر سیاسی نظام تشکیل دے۔ حال ہی میں قائم کردہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) نے معیشت پر مثبت اثرات ڈالے ہیں اور کچھ اہم فیصلے کیے ہیں جو ملک کی ترقی کے لیے ضروری تھے۔ تاہم، سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجوہات میں بار بار کی سیاسی مداخلت، غیر شفاف انتخابی عمل، کمزور قانون سازی، اور اداروں کی حدود سے تجاوز شامل ہیں۔ عدالتی نظام میں اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ ایک جدید اور شفاف سیاسی نظام اور عدالتی اصلاحات کے بغیر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام ممکن نہیں۔
پاکستان کے لیے آئندہ کا ڈاکٹرائن ایسا ہونا چاہیے جو ملک اور عوام کے مفادات کو ترجیح دے، نہ کہ چند افراد یا طبقات کے ذاتی مفادات کو۔ یہ نظریہ ملک میں سیاسی، معاشی اور سماجی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے وضع کیا جائے۔ تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوگا، اور عوامی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع کو فروغ دینا، نسلی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا، اور ایک شفاف اور منصفانہ نظام کا قیام وہ اقدامات ہیں جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام محنتی اور باصلاحیت ہیں، اور انہیں صرف ایک منصفانہ اور مواقع سے بھرپور نظام کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو ملک کی ترقی کے لیے استعمال کر سکیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ایک روشن اور خوشحال مستقبل کی جانب قدم بڑھائیں۔